Facebook SDK

 

قرآن مجید کی اثر انگیزی   | قرآن مجید کا اعجاز اور اندازِ بیاں کی سحر طرازی

قرآن مجید کا اعجاز اور اندازِ بیاں کی سحر طرازی

القرآن قرآن مجید ایک ایسی نادر اور بے مثل کتاب ہے جس کی نظیر کائنات میں کہیں بھی نہیں ملتی ۔ آسمانی کتابیں ہوں یا زمینی ، خالق کی طرف سے ارسال گردہ ہوں یا مخلوق کی طرف سے تحریر کردہ ۔ زمانہ ماضی میں لکھی گئی ہو یا زمانہ حال میں ۔موجودہ کتابیں ہوں یا مستقبل میں چھپنے والی کتا ہیں ۔ الغرض کوئی کتاب بھی اس کی مد مقابل نہ ہوئی ہے نہ ہو گی ۔ ہادی کون و مکاں جب اس نسخہ ہدایت کو غار حرا سے لے کر تشریف لائے تو اس کے مخاطبین یعنی کفار مکہ نے ان اسے کلام الہی ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس پر تہمت دھری که بی کلام بشر ہے انسانی کلام ہے ۔ مالک کائنات نے ان کے اس اعتراض پر فرمایا کہ

 وإن كنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا فأتوا بسورة من مثله وادعوا شهداءكم من دون الله إن كنتم صدقين - ( البقره ٢٣ ) '

 ' اگر تم شک میں ہوۓ اس قرآن کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا تو اس معیار کی ایک توسورۃ بنادکھاؤ اور اس کام میں اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی شامل کر لواگر تم سچے ہو ۔ “

 بہر کیف اللہ تعالی کے اس پیج کو چودہ صدیاں گزرجانے کے باوجود اب تک کوئی بھی قبول نہ کر سکا اور نہ کر سکے گا ۔ اس چیلنج کے متعلق اللہ نے نزول قرآن کے ایام ہی میں فرمادیا تھا کہ :

 فإن لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التي تقودها الناس ۔ ( سورۃ البقرہ ۔ ۲۴ )

 ’ پس اگر تم نہ کر سکو اور ہرگز نہ کرسکو گے تو اس آگ سے ڈروجس کا ایندھن بنیں گے آدمی ‘

 بہر کیف خالق کے کلام کا مقابلہ مخلوق کا کلام ہرگز نہیں کر سکتا ۔ اگر کوئی کر سکتا ۔ اگر کوئی شخص کوشش بھی کرے گا تو عاجز رہے گا ۔ کفار مکہ کا اپنی ہٹ دھری کی وجہ سے محض سید اعتراض براۓ اعتراض ہی تھا لیکن مکہ میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خانہ کعبہ کے ساتھ سورۃ الکوثر لکھ کر سبع معلقات کے ساتھ لڑکا دی تو عرب کے ادباء اور شعراء ہی نے کہا کہ :

 ماهذا كلام البشر  

بہر کیف قرآن حکیم قیامت تک اور مابعد القیامت ایک زندہ جاوید مجزہ ہے ۔ اس کی فصاحت و بلاغت اس کا خاص نظم وضبط اس کی ترتیب و تدوین اس کا خصوصی طرز بیان اور طرز استدلال ، عالم غیب کی خبر میں اور ہدایت کی تاثیر بے مثل اور لاجواب ہے ۔ الغرض اس بے مثل کتاب نے اپنے مقابلے پر سب کو عاجز کر دیا ہے قرآن کے اعجاز کا تفصیلی خاکہ پیش کر نا محال ہی نہیں ناممکن بھی ہے بہر کیف اس کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے :

·        ماضی و مستقبل پر محیط علم

·        فصاحت و بلاغت

·        اسلوب بیان

·        مکمل ضابطہ حیات

·        اثر انگیزی

·        حفاظت قرآن

·        نظم وضبط

·        سہولت حفظ

ا ۔ فصاحت و بلاغت

 عربوں کو اپنی زبان دانی ، شاعری فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا وہ اپنے مقابلے میں غیر عربوں کو بھی یعنی گونگا انساں کہتے تھے لیکن قرآن کریم نے جب اپنی فصاحت و بلاغت افرینی ان پر واضح کی تو وہ گنگ ہو گئے یہاں تک کہ جب انہیں یہ چینی ملا کہ تم اس کلام کے ایک سو چود و حصوں کے مقابلے اسی طرح کا صرف ایک نمونہ لے کر آؤ ۔ کفار مکہ سے لے کر آج تک چودہ صدیاں بیت گئی ہیں لیکن انسان ایسا کرنے سے قاصر رہا ہے ۔ قرآن کریم نے اپنے اظہار کے لئے کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مطالب بیان کرنے کا جونہایت عمدہ پاکیزہ اور خالص دشستہ اسلوب اپنایا ۔ یہ کمال کی دوسری کتاب کو حاصل نہیں جہاں لوگ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت اور کردار کو دیکھ کر مسلمان ہوئے تھے وہاں وہ قرآن کی فصیح و بلیغ کلام سے متاثر ہوئے بغیر بھی ندرہ سکتے تھے ایک امی شخص سے ایسا کلام سن کر بے ساختہ کہہ اٹھتے تھے کہ

 ماهذا كلام البشر” انسانی کلام نہیں ہوسکتا ۔ ‘ ‘ 

۲۔ ماضی مستقبل پر محیط علم 

قرآن کریم ایک ایسا کلام ہے جس میں اقوام سابقہ کے ایک ہزار واقعات اپنی بیج صحت کے ساتھ موجود ہیں ۔ گویا کلام اللہ سابقہ اقوام کی تاریخ کا ایک بہت بڑا ماخذ ہے ۔ کفار مکہ جب ایک ڈی نبی کی زبان سے سابقہ اقوام کے حالات کا اس طرح بیان سنتے جو خود انہیں معلوم نہیں تھے تو وہ دنگ رہ جاتے اور بعض اوقات تو و و قرآن کی مدد سے اپنے عقائد اور تاریخ کی تیج کر تے تھے ۔ نیز قرآن مجید نے مستقبل کے متعلق جو پیش گوئیاں کی ہیں وہ بھی سو فیصد درست نکلی ہیں ، مثلا فتح مکہ کی بشارت ، قرآن کی حفاظت روم کی فتح وغیرہ میں سب باتیں درست نکلیں علاوہ ہذاقرآن نے قیامت تک کے لئے جو پیش گوئیاں فرمائی ہیں اب وہ حقیقت کا روپ دھار رہی ہیں ۔

۳۔ اسلوب بیان

 قرآن مجید نے اپنے اظہار کے لئے جو اسلوب پیش کیا وہ نہایت انوکھا اور بے شل ہے ۔ایسا اسلوب بیان عرب کے شعراء ، ادباء کے لئے بالکل نرالہ اور انوکھا تھا کیونکہ میں رائج الوقت تمام اسالیب سے ہٹ کر تھا اور ایک امی شخص کی طرف سے اس کا پیش ہونامعجزہ سے کم نہ تھا ۔ اس طرز بیان اور اسلوب کی آج تک کوئی نقل تک نہا تارسکا ہے ۔ اس میں اکثر مقامات پرلفظی اور معنوی تکرار نظر آتی ہے ۔ لیکن ذوق سلیم پر گراں نہیں گزرتی بلکہ ہر تکرار نئے مقصود اور تازہ تاثیر کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے اور اگر یہی اسلوب کسی اور کتاب میں ہوتا تو طبیعت اس سے اکتا جاتی اور ذوق سلیم پر بارگراں ہوتا لیکن قرآن کریم جتنا پڑھتے جائیں طبیعت کو اکتاہت کی بجاۓ سرور ملتا ہے ۔

 ۴۔ مکمل ضابطہ حیات

 اللہ کی زمین میں انسان اس کا نائب اور خلیفہ ہے ۔خلافت اور نیابت کے تقاضوں میں یہ بات بدرجہ اتم شامل ہے کہ نائب کے لئے مقتدرائلی اصول وضوابط عطا کرے جو اس کی ساری زندگی کو کفایت کر میں لیکن اللہ نہ صرف مقتدرائٹی ہے بلکہ خالق بھی ہے ۔ وہ انسانی فطرت کو جانتا ہے چنانچہ اس کی طرف سے نازل کردہ قرآن انسان کی تمام مادی اور روحانی ضروریات کی کفالت کرتا ہے اور اس کی عطا کردہ ہدایات اپنی افادیت ، جامعیت ، دوامیت ، عالمگیریت عمل پذیری اور باہمی ہم آہنگی کے اعتبار سے دنیا کا کوئی انسانی قانون قرآنی قانون کے مقابلے میں نظر نہیں سکتا اور قرآنی قانون واحد قانون ہے جو انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی راہنمائی کرتا ہے اور قرآنی قانون ہی واحد قانون ہے جو انسانی فطرت کے ساتھ مطابقت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے تمام دکھوں کا ہر حال اور ہر زمانے میں مداوا ہے ۔

 ۵۔ نظم وضبط 

قرآن کے اسلوب اور معانی میں ایک عجیب ربط ہے اوران کا رشتہ نہیں ٹو تا جولفظ جہاں جڑ گیا ہے اسے وہاں سے اٹھا کر دوسرا لفظ لاؤ تو معنویت جاتی رہتی ہے ۔ قرآن میں مختلف مضامین یکے بعد دیگرے آتے ہیں ۔ کہیں وعظ ونصیحت ہے تو کہیں اخلاق و عادات کہیں احکام عبادات ہیں تو کہیں احکام معاملات لیکن نظم وضبط اور ربط میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ تمام مضامین کے علاوہ ماقبل اور مابعد میں ایک خاص ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔

 ۲ ۔ اثر انگیزی 

قرآن کریم کے الفاظ میں اتنی شیرینی اور بلا کی اثر انگیزی ہے جو بھی اسے پڑھتا یا سنتا ہے مسحور ہو جا تا ہے ۔ حتی کہ غیر مسلم بھی اس کلام کو سن کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا محض انسانیت جب بھی اس نسخہ کیمیا کو کفار کے سامنے پیش کرتے تو وہ یا تومسلمان ہوئے بصورت دیگر دو انداز اختیار کرتے تھے ۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کو یہ کہہ کر بدکاتے تھے کہ محمد بن عبد اللہ سے گفتگو بالکل نہ کر میں کیونکہ اس کی گفتگو میں توسحر پایا جاتا ہے جو اثر کئے بغیر نہیں رہتی ۔ دوسرا یہ کہ قرآن کو بالکل ہی نہ سنواس کی سماعت سے انسان اپنادین نچوڑ دیتا ہے ۔ ان کی اس حرکت کو قرآن نے خود یوں بیان کیا ہے ۔

 لاتستغوالهذ القران والغوفيه لعلكم فيه تغلبون ۔ '

 ' اس قرآن کو بالکل نہ سنو ( تا کہ تم مغلوب نہ ہو جاؤ بلکہ شور ڈال دو تا کہ تم غالب رہو ۔ ' ' ( انقرآن ) 

7-سہولت حفظ

 اتنی بڑی کتاب کا زبانی یاد ہو جانا بھی بہت بڑا معجزہ ہے ۔ ہر زمانے میں ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں مسلمان مردعورتیں قرآن مجید کے حافظ چلے آۓ ہیں ۔ میصرف قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ جو اس کو سیکھتا اور یاد کرتا ہے یہ اس کو نہ صرف حفظ ہوجا تا ہے بلکہ اس کے حافظ کو اللہ نے ایک اور اعزاز بخشا ہے کہ اس کے حفظ کرنے سے انسانی دماغ کی خفتہ شر یا نہیں بلکہ پورے جسم کی خفتہ صلاحیتیں بھی جاگ اٹھتی ہیں ، اور اس طرح اس کا حافظہ ہر شعبہ زندگی میں طاق نظر آتا ہے ۔

8- حفاظت قرآن

 قرآن مجید ایک ایسے دور ، ایک ایسی قوم اور ایک ایسے ملک میں نازل ہوا جو ہر لحاظ سے دنیا کی پسماند ترین قوم تھی ۔ یہاں پر جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھاۓ ہوۓ تھے ۔ عرب کے پورے معاشرہ میں پڑھے لکھے آدمی کی تلاش محال تھی ۔ سامان تحریر جس میں کاغذ ، پنسل ، قلم ، سیاہی خاصے محدود تھے چھاپہ خانوں کا وجود مفقو دتھا ۔ مگر یہ قرآن مجید کا معجزہ اور اعجاز ہے کہ ایسی سہولتوں کے نہ ہوتے ہوئے بھی دو تحریر ہوا اور چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی بالکل اسی طرح صحیح وسالم محفوظ ہے اور اس میں کہیں بھی ایک بھی حرف ، شد ، مد ، زیر زبر کی کمی بیشی نہیں ہوئی مگر اس کتاب کے علاوہ خواہ آسانی کتابیں ہوں یا انسانی کسی میں بھی مجال نہیں کہ وہ یہ دعوی کر سکے کہ وہ اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں نازل ہوئی یا ابتداء میں لکھی گئی ۔ آج قرآن کے علاوہ تمام سابقہ کتب ساوی تحریف شدہ ہیں مگر قرآن زمانے کی دست برو سے بالکل مامون اور محفوظ ہے ۔ حقیقت حال یہ ہے وہ کتاب جس کی حفاظت کا ذمہ خدا تعالی نے خود اٹھایا ہوا ہے جب وہ خود اس کا محافظ ہے تو پھر کسی کی مجال ہے کہ اس میں کمی بیشی کرے : إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحفظون : ( الجرو ) اس ذکر ( قرآن ) کو ہم ہی نے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کر نے والے ہیں ۔ 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post