وطن کا قرض
فقط اک فرض باقی ہے
نبھا کر لوٹ آؤں گا
وطن کا قرض باقی ہے
چکا کر لوٹ آؤں گا
قسم مجھ کو وطن کی
مٹی کے زخموں کی
صفحہِ ہستی سے دشمن
کو مٹا کر لوٹ آؤں گا
مجھے معلوم ہے کہ میں
تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوں
پریشاں ہو نہ میری
ماں میں جا کر لوٹ آؤں گا
سجا رکھنا میری خاطر
کفن تو سبز پرچم کا
لہو میں سر سے پاؤں
تک نہا کر لوٹ آؤں گا
Post a Comment