Facebook SDK

اردو ادب میں فکاہیہ کالم نگاری ، پاکستان میں فکاہیہ کالم نگاری، فکاہیہ کالم نگاری اور اردو ادب

اردو میں فکاہیہ کالم نگاری

اردو میں ادبی کالم نگاری (طنز و ظرافت) کے نمونے یوں تو ہمیں جعفر زٹلی (1731) کے اردو فارسی کے ملے جلے طنزیہ و مزاحیہ اشعار میں ملتے ہیں یا ان متعددشہر آشوبمیں ہمیں طنز و مزاح کے عناصر ملتے ہیں جو اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں لکھے گئے ۔ حتی کہ غالب کے خطوط میں بھی جابہ جا طنز و مزاح کی آمیزش نظر آتی ہے ، لیکن طنز و مزاح اور ادبی کالم نگاری کا باضابطہ آغاز منشی سجاد حسین کے اخباراودھ پنچسے ہوتا ہے ۔ ہفتہ واراودھ پنچ‘ 1877 میں سجاد حسین کی ادارت میں جاری ہوا ۔ اودھ پنچ کے اجراء سے قبل اردو اخبار نویسی تقریباً نصف صدی کا سفر طے کرچکی تھی ۔ ملک کے گوشے گوشے سے بیشمار اردو اخبارات شائع ہوتے تھے ، ان میں بعض نہایت معیاری اور رجحان ساز اخبارات بھی تھے ۔ اس کے باوجوداودھ پنچکا اجراء ہندوستانی اردو صحافت کی تاریخ کا ایک حسین باب ہے ۔ اس اخبار کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں طنزیہ و مزاحیہ صحافت کا ایک پورا دور اس کے نام سے منسوب ہے ۔ تقریباً 36 برسوں تک نہایت آب و تاب کے ساتھاودھ پنچشائع ہوتا رہا ۔ اس اخبار کی خوش بختی یہ بھی رہی کہ اسے چھ سات اعلی اورشوخ مزاج ادیب میسر آگئے تھے ،جن میں تربھون ناتھ ہجر ، رتن ناتھ سرشار ، مچھو بیگ ستم ظریف ، جوالا پرشاد برق ، نواب سید محمد آزاد ، منشی علی احمد شوق اور اکبر الہ آبادی وغیرہ شامل تھے۔ ان قدآور ظرافت نگاروں نے صحیح معنوں میں اردو کے مزاحیہ ادب کو اعتبار و وقار بخشا ۔اودھ پنچمیں جو مضامین شائع ہوتے تھے ان کا دائرہ بہت وسیع تھا ۔ دنیا کا وہ کون سا مسئلہ تھا جو اس میں شامل نہ ہوتا تھا ۔ ان میں مغرب اور مغربی تہذیب ، اہل ہند کی کاہلی ، غربت و جہالت ، بے راہ روی ، مغرب کی اندھی تقلید ، خواتین کی بے پردگی ، سرسید کی تحریک کے بعض اہم پہلو ، شراب ، افیون ، بیٹر بازی ، توہم پرستی اور اس جیسے بیسیوں دیگر موضوعات و مسائلاودھ پنچکا حصہ تھے ۔ سیاسی و سماجی ناہمواریوں پر بھی کھل کر لکھنے والے لکھا کرتے تھے ۔ علاوہ ازیں صحتِ زبان کے موضوع پر بھی کالم لکھے جاتے تھے ۔ شعرا کے کلام پر اصلاح کے مباحثے بھی چلتے رہتے تھے ۔ جس کی وجہ سے اہل علم و ادب کا ایک بڑا حلقہ اس کا اسیر بنتا چلا گیا ۔اودھ پنچسماج کا مکمل آئینہ دار تھا جس میں منفی سیاسی پہلوؤں اور سامراجی نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کی جرأت تھی۔ فکر تونسویاودھ پنچکے حوالے سے پندرہ روزہچنگاریمیں بعنواناودھ پنچ والےلکھتے ہیں :

’’اودھ پنچ والے کون تھے؟ ۔ ایک صدی پہلے طنّازوں کا یہ قافلہ کیوں پیدا ہوا تھا ؟ فرنگی سامراج کی تلوار قلم اور اظہار پر لہرارہی ہو ۔ نثر میں رئیسانہ پرتکلفی کو اعلی تہذیب سمجھا جاتا ہو اور سیاسی جد و جہد پر نوکیلے پہرے بیٹھے ہوئے ہوں اور عامتہ الناس کی بے چارگی کو خدا کی دین سمجھا جاتا ہو ۔ ایسے میں ، ایسے گھٹن اور زوال زدہ معاشرے میںاودھ پنچوالے دانشوروں کا قافلہ اپنا طرّار ، شگفتہ ، بے باک قلم لیے ہوئے ابھر آیا ۔ کچھ اس طناز لب و لہجہ کے ساتھ ، ایسے شستہ اور تیکھے مزاج کی دلفریب آڑ لیے ہوئے کہ اودھ پنچ میں جو بھی فقرے شائع ہوجاتے ، بے بس عوام کی کُچلی ہوئی روح کے غماز بن جاتے ۔ اردو نثر کو تکلفات کی مٹی کے بے روح ڈھیر سے نجات دلانے اور اسے عوام کی ست رنگی پھلجھڑی بنانے میں جتنااودھ پنچوالوں کا کام ہے ، تواریخ اردو اسے آج تک نہیں بھلاسکی تو آنے والی صدیوں میں کیا بھلاسکے گی۔ (پندرہ روزہ چنگاری ، کالم نگار نمبر ، مرتب فکر تونسوی ، رام نگر شاہدرہ ، دہلی 198 ، صفحہ 1) 


اودھ پنچنے 36 برس تک ظرافت کے گیسو سنوارنے کے بعد 1913 میں دم توڑ دیا ۔ بعد ازاں اس کی روایت کو فروغ دیتے ہوئے بہت سے اخبارات نے اپنے کالموں میں ظرافت کو سماجی نشیب و فراز کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنایا ۔ انھی میں سے ریاض خیرآبادی کے رسالوںفتنہاورعطر فتنہنے بھی طنز و مزاح کے سرمایے میں بیش بہا اضافہ کیا ۔ ان رسائل کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے نہ صرف طنز و مزاح نگاروں کو طنز کے آداب سکھائے اور مزاح پیدا کرنے کا گُر سکھایا بلکہ طنز و مزاح کی اہمیت کو بھی منوایا۔ اردو طنز و مزاح نگاری کی خوش قسمتی یہ رہی کہ اس میدان میں ہمیشہ اردو کے اعلی پائے کے ادیبوں نے قسمت آزمائی کی ۔ بیسویں صدی کے آغاز تک تو صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ اردو میں نہ صرف طنز و مزاح پر مشتمل رسائل شائع ہونے لگے تھے ، بلکہ ہر اردو اخبار میں مزاحیہ کالم کی اہمیت محسوس کی جانے لگی تھی ۔چونکہ اس دور میں حالات کچھ ایسے پیدا ہوگئے تھے کہ راست طور پر بہت سی باتوں کو بیان کرنے کی بجائے طنز و مزاح کے خوبصورت پیرائے میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنا زیادہ موثر سمجھا جاتا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے ادیب جن کا راست طور پر طنز و مزاح سے کوئی تعلق نہ تھا وہ بھی کالم نگاری کی جانب مائل ہوئے اور کالم نگاری کے ذریعے انھیں زبردست شہرت حاصل ہوئی ۔ ان میں سے خواجہ حسن نظامی ، ابوالکلام آزاد ، چراغ حسن حسرت ، قاضی عبدالغفار ، عبدالماجد دریابادی ، عبدالمجید سالک ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ۔ 

جس سال منشی سجاد حسین کااودھ پنچبند ہوا ، اسی سال مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنا ہفت روزہالہلالجاری کیا ۔ مولانا نے آغاز میں ہیالہلالمیںافکار و حوادثکے عنوان سے ایک فکاہیہ کالم شروع کیا ، جسے وہ خود ہی لکھا کرتے تھے ۔ ان کے موضوعات سیاسی و مذہبی نوعیت کے ہوا کرتے تھے ۔ وہ ان کالموں میں فرنگی حاکموں کی مسلم دشمنی ، سرسید کی انگریز نواز سیاست اور مسلمانوں کی کاہلی اور سہل پسندی کے موضوعات نمایاں طور پر پیش کرتے تھے ۔ سیاسی مخالفین کی خوب حرف گیری کیا کرتے تھے ، لیکن ان کی ظرافتی تحریروں میں ظرافت سے زیادہ طنز کے عنصر نمایاں ہوتے تھے ۔ مولانا نےالہلالمیںفکاہاتکے عنوان سے طنزیہ شاعری کا بھی ایک کالم شروع کیا اور پھر اسی دہائی میں یعنی بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اور اس کے بعد جاری ہونے والے اردو اخبارات نے ظرافت نگاری کو اپنے روزناموں کا جزولاینفک تصور کیا اس طرح مزاحیہ کالم اردو صحافت کا باقاعدہ امتیازی وصف بن گیا اور یہ سلسلہ جو اس وقت شروع ہوا آج بھی اس کا تسلسل اردو صحافت میں پایا جاتا ہے ۔ 

اردو صحافت کا زور اس وقت شمالی ہند خصوصاً پنجاب میں تھا ۔ چنانچہ اس صوبے کی راجدھانی لاہور سے نکلنے والے تقریباً سبھی نئے روزناموں نے فکاہیہ کالم شائع کرنے کا خاص طور پر اہتمام کیا ۔ ان اخبارات نے نظم و نثر کے ذریعے طنز و مزاح کے سرمائے میں اضافے کا کام کیا ۔ مولانا ظفر علی خان کے اخبارزمینداراورستارۂ صبحمحمد علی جوہر کےہمدرد، عبدالمجید سالک کےانقلابچراغ حسن حسرت کےشیرازہمہاشہ کرشن کےپرتاپمہاشہ خوشحال چند کےملاپلالہ لاجپت رائے کےبندے ماترماور سناتن دھرم سبھا کےویر بھارتوغیرہ میں اپنے اپنے مخصوص فکاہیہ کالم تھے ۔ یہ حقیقت ہے کہ 1947 تک جتنے بھی اخبارات جاری ہوئے ان تمام اخبارات میں فکاہیہ کالم ہوا کرتے تھے اور جس اخبار کو کوئی مزاحیہ ادبی کالم نگار نہیں ملتا تھا تو اخبار کا مدیر ہی فکاہیہ کالم نگاری کا فریضہ انجام دیا کرتا تھا ۔ نثر ہو یا نظم جس میں مدیر کو زیادہ آسانی یا قدرت حاصل ہوتی تھی اس میں طنز و مزاح کے جوہر دکھاتا تھا ۔ 


1903 میں ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین نے لاہور سےزمیندارکی اشاعت کا آغاز کیا۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا ظفر علی خاں نے زمیندار کی ادارت کی ذمے داری سنبھالی ۔ نظم کے میدان میں مولانا ظفر علی خاں واحد کالم نگار تھے ، جنھوں نے اپنی صلاحیت کا اعتراف کرایا اور منظوم انداز میں مزاحیہ کالم لکھ کر سب کو حیرت زدہ کردیا ۔ پھر یہ جو سلسلہ ان کے اخبارزمیندارمیں شروع ہوا تو اس کی شہرت برصغیر ہند و پاک میں ایسی پھیلی کہ صرف ان کا کالم پڑھنے کے لیے قارئینزمیندارخریدا کرتے تھے اور اس کا بے صبری سے انتظار کرتے تھے ۔ مولانا ظفر علی خاں کی فکاہیہ کالم نگاری کا اصل جوہر ان کی شاعری میں ہی پوشیدہ تھا ۔ ان کا قلم سیاسی اور مذہبی موضوعات کی جانب مائل تھا ۔ ان کی فکاہیہ نظموں میں خطیبانہ انداز غالب تھا ۔ کبھی ان کی تحریروں میں شدت پسندی غالب آجاتی تھی اور ان میں ہجویانہ انداز نمایاں ہوجاتا تھا۔ وہ جس بھی سیاسی اور مذہبی شخصیت کو نشانہ بناتے تھے ، اس کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دیتے تھے ۔ علاوہ ازیں انھوں نے ایک طرف انگریزوں اور دوسری جانب ہندوؤں کو بھی اپنی مزاحیہ منظوم تحریروں کے ذریعے نشان بنایا۔ حکومت نے اخبار کے شدت پسند انداز کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور 1916 میںزمیندارپر پابندی عائد کردی گئی ، لیکن مولانا کب خاموش رہنے والے تھے ۔ انھوں نے فوراًستارۂ صبحکے نام سے ایک غیر سیاسی اخبار نکالا اور اس میںفکاہاتاورجواہر ریزےکے زیر عنوان وہ نئے مزاحیہ کالم کی جگہ مخصوص کرڈالی ، جن میں غیر سیاسی موضوعات پر نہایت شائستگی و شستگی سے طنزیہ تحریریں معرض وجود میں آنے لگیں ۔ 1920 میںزمیندارکا دوبارہ اجرا عمل میں آیا اور اس اخبار کا پرانا مزاحیہ سلسلہتیر و تفنگدوبارہ شروع ہوگیا ۔ اس میں انھوں نے کسی بھی سیاسی لیڈر کو معاف نہیں کیا ، یہاں تک کہ اقبال ، جناح ، ابوالکلام آزاد ، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو تک کو نشانہ بنانے سے احتراز نہیں کیا ۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے فرضی قلمی نامنقاش،ابوزید،سروجی،حارثاورابن ہمامسے لکھتے رہے ، لیکن مزاحیہ منظوم کالم نگاری میں جو مقام مولانا کو حاصل ہوا وہ کسی دوسرے مزاح نگار کے حصے میں نہیں آیا ۔ 

ادبی طنز و مزاح نگاری میں عبدالمجید سالک کی خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ عبدالمجید سالک 1920 کے آس پاسزمیندارکی ادارت میں شامل ہوئے ۔ انھوں نےزمیندارمیںافکار و حوادثہی کے عنوان سے اپنا فکاہیہ کالم لکھنا شروع کیا ۔ وہ ایک ذہین اور دور اندیش قلمکار تھے ۔ جلد ہی ان کا کالم مزاح اور طنز کے نئے معیار کو پہنچ گیا اور اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ سالک 1927 میںزمیندارسے الگ ہوگئے ۔ عبدالمجید سالک نےانقلاباورزمیندارمیں کم و بیش 30 برس تک مزاحیہ کالم نگاری کی۔ اس طویل عرصے تک شاید ہی کسی نے مزاحیہ و طنزیہ کالم نگاری کا سلسلہ جاری رکھا ہو ۔ انھوں نے اپنی کالم نگاری کے ذریعے ادبی کالم نگاری کو جن بلندیوں پر پہنچایا اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ 

چراغ حسن حسرت کاشمیری کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبارنئی دنیامیں کولمبس کے نام سےافکار و حوادثجیسا کالم لکھا کرتے تھے ۔ کلکتہ کےنئی دنیاکے بعد حسرت نے مسلم اور ہندو ملکیت کے کئی اردو اخبارات میں ملازمت کی ۔ ان اخبارات میںکولمبس،کوچہ گرداورسندباد جہازیکے قلمی ناموں سے اپنا کالم لکھا ۔ بعد ازاں 1932 میں لاہور سےشیرازہکے نام سے اپنا فکاہی اور ادبی ہفت روزہ جاری کیا۔شیرازہمیں حسرت کی شاہکار طنزیہ تخلیقجدید جغرافیۂ پنجابقسط وار شائع ہوئی، جو بعد میں 1946 میں کتابی شکل میں چھپ کر منظر عام پر آئی ۔ اس کالم میں انھوں نے پنجاب کے احوال، سیاسی میدان کے سورماؤں ، حریفوں اور حلیفوں کے نشیب و فراز کو اجاگر کیے اور تلخ حقائق کو مزاح و طنز کے پیرائے میں پیش کیے ۔ معروف کالم نگار نصر اللہ خاں نے لکھا ہے کہ’’حسرت صاحب کے بارے میں بلاخوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ ان سے بڑا مزاحیہ کالم نویس اور طنز نگار آج تک نہیں پیدا ہوا۔ 


بیسویں صدی کے ظرافتی افق پر ایک تابندہ نام خواجہ حسن نظامی کا ہے ، جنھوں نے اردو طنز و مزاح کے صف اول کے لکھنے والوں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ۔ خواجہ حسن نظامی کی ظرافت نگاری کے متعلق فکر تونسوی پندرہ روزہچنگاری، دہلی میں رقمطراز ہیں :

’’بیسویں صدی کا آغاز ہی ہوا تھا کہ دہلی کے افق سے اردو صحافت اور نظافت کا ایک نیا اور چمکدار ستارہ طلوع ہوا ۔ خواجہ حسن نظامی ، پورے نام کے صوتی تاثرات ہی میں عظمت کی جلترنگ جادو جگادیتی ہے ۔ اپنے اخبارمنادیمیں قلم برداشتہ بے ساختگی اور بے خوفی سے لکھنا شروع کیا ، تو لکھتے گئے ، لکھتے گئے ،بے تکان ۔ موضوع اس گیسو دراز خواجہ کی قدم بوسی کے لیے جیسے کیو (Que) بنا کر کھڑے ہوجاتے۔ موضوع میں انگریز سامراج آئے ، عالم بے عمل ، مذہبی نقاب پوش آئے یا معاشرتی تو تو میں میں ۔ خواجہ حسن نظامی کا تند و تیز مگر آداب یافتہ قلم اپنے منفرد اسلوب میں سب کے تار و پود بکھیر دیتا ۔ دیکھتے دیکھتے تھوڑی ہی مدت میں ’’منادی‘‘ وقت کی گونجیلی آواز بن گیا۔‘‘

(پندرہ روزہ چنگاری ، دہلی ، 1984، صفحہ 55)

خواجہ حسن نظامی کے مزاحیہ کالموں میںکم اِن مائی ڈیئر،جھینگر کا جنازہاور اس قبیل کے دیگر کالموں کو بڑی شہرت حاصل ہوئی ۔خواجہ حسن نظامی نے کالم نگاری کو وقت کے اہم تقاضے کے طور پر اپنایا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے کالم جس انداز کے تحریر کیے اس کی دھوم سارے ملک میں تھی ، بلکہ آج بھی ان کی تحریریں بڑی دلچسپی اور سنجیدگی سے پڑھی جاتی ہیں ۔ ان کے ایک کالمجھینگر کا جنازہسے پیش ہے ایک مختصر اقتباس

’’انسان مثل ایک جھینگر کے ہے ، جو کتابیں چاٹ لیتے ہیں ۔ سمجھتے بوجھتے خاک نہیں۔ یہ جتنی یونیورسٹیاں ہیں ، سب میں یہی ہوتا ہے ۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا جس نے علم کو علم سمجھ کر پڑھا ہو۔ ‘‘

خواجہ حسن نظامی نے جھینگر کے تناظر میں انسانوں کی علمیت اور خصوصاً یونیورسٹیوں میں تعلیم کی صورت حال کا جو خاکہ پیش کیا ہے وہ آج بھی کم و بیش سو سال گزر جانے کے بعد بھی بالکل حقائق پر مبنی معلوم ہوتا ہے ۔ 

حاجی لق لق روزنامہزمیندارلاہور میںتعلقہکے نام سے روزانہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ لوگ اسے صبح صبح تفریح کے طور پر پڑھ کر بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے ۔ ان کالموں میں شعریت کا حسن اور معاصرانہ چشمک کی کڑواہٹ و شیرینی دونوں شامل ہوا کرتی تھی ۔ انھیں مزاحیہ نظم و نثر دونوں پر عبور حاصل تھا ۔ لوگ صبح صبح اخبار میں سب سے پہلے ان کا ہی کالم پڑھا کرتے تھے ۔حاجی لق لق کا ایک مزاحیہ مضمونلیڈر بن جاؤہے جس میں انھوں نے لیڈر کی خصوصیات بیان کی ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ کو دنیا میں کوئی کام نہیں ملتا تو بس آپ لیڈر بن جایئے ۔ آپ کے مزے ہی مزے ہوں گے ۔ اپنے اس مضمون میں حاجی لق لق لکھتے ہیں :

’’اگر آپ کو دنیا میں کوئی کام نہیں ملتا تو لیڈر بن جاؤ ۔ تجارت کرنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے ۔ کھیتی باڑی کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے اور نوکری کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے ۔ پہلے تعلیم کی پھر سفارش کی ۔ سفارش کے بغیر چپراسی کی نوکری بھی نہیں ملتی ۔ ہاں لیڈری سب سے آسان چیز ہے ، نہ سرمائے کی ضرورت ، نہ محنت کی، نہ تعلیم کی نہ سفارش کی ۔ اور مزے ولایت پاس سے زیادہ ، جدھر جاؤ عزت ، زندہ باد کے نعرے ، جلسے جلوس ، مرغ پلاؤ ۔ غرض مزے ہی مزے ہیں۔ ‘‘


حاجی لق لق کا ایک بہت ہی مشہور مزاحیہ مضمونتانگے والےبھی ہے جس میں کوچبان اور سوار کی گفتگو کو نہایت دلچسپ پیرائے میں لق لق نے بیان کیاہے ۔ وہ اپنے عہد کے ایک عظیم فکاہیہ کالم نگار تھے۔ 

اردو کے ادبی طنز و مزاح میں ایک بڑا نام ملا رموزی کا بھی ہے ۔ ملا رموزی کی گلابی اردو کو کافی شہرت حاصل ہوئی ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ گلابی اردو اور ملا رموزی دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم معلوم ہوتے ہیں ۔ بقول فکر تونسوی کہ : ’’گلابی اردو اور ملا رموزی دونوں ایک دوسرے کے ہمزاد معلوم ہوتے ہیں ، اس فرق کے ساتھ کہ ملا رموزی 1896 میں دنیا میں تشریف لائے اور ان کے اندر گلابی اردو نے 1915 میں جنم لیا ۔ یہ گلابی اردو 1953 میں کوچ کرگئی بلکہ ملا رموزی کا تصور اس کے بعد بھی ہندوستانی ذہن میں زندہ رہا۔‘‘

ملا رموزی کی گلابی اردو کے کالم نہایت دھماکے دار کالم تھے ۔ ان کے کالم شائع ہوتے ہی حکومت اور قارئین پریشان ہوجایا کرتے تھے ۔ انگریزی کلچر نے جو ہندوستانی قوم کی اخلاقی اقدار پر جو بالواسطہ طور پر حملے شروع کیے تھے ملا رموزی طنزیہ ومزاحیہ گلابی لہجے میں ان کا مسلسل منہ توڑ جواب دیتے تھے اور یہی ان کے کالموں کی خصوصیت تھی ۔ ان کا منفرد اسلوب تھا اور اسی منفرد اسلوب کی وجہ سے وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے ملا رموزی کی گلابی اردو کا ایک اقتباس اور اندازہ لگایئے ان کے کاٹ دار جملوں کا:

’’تو قسم ہے درجہ سوم موٹر کاروں کی کہ تباہ کرتا ہے دھواں پٹرول ایسی موٹر کاروں کا صحت دماغ کو عوام کی ہر جگہ کہ نہیں ، غالب آئیں گے اب باشندے حبشہ کے اوپر قبضہ اٹلی کے ، مگر یہ کہ لڑتے رہیں گے وہ بیچ دیہات و قصبات اپنے ساتھ تو جھوٹی امید کے‘‘ (جاپان کی سیاہ گولہ باری)

شوکت تھانوی کئی خوبیوں کے مالک تھے ۔ وہ بیک وقت افسانے ، ڈرامے ، خاکے ، شاعری اور کالم نگاری میں طبع آزمائی کرتے رہے ، لیکن انھیں جو شہرت حاصل ہوئی وہ ان کی کالم نگاری کی وجہ سے 1930 سے 1980 تک کم و بیش پچاس برسوں پر محیط وہ قلم کے تیر و نشتر چلاتے رہے ۔ آزادی سے قبل اور آزادی کے بعد ہندو پاک کے اخبارات شوکت تھانوی کے کالم کے بغیر ادھورے تصور کیے جاتے تھے۔ ان کے اہم کرداروں میں بیگم ، بچے ، بھائی ، بہن اور ہمجولی ہوا کرتے ۔ جن کی آڑ میں وہ طنز و مزاح کی پھلجھڑیاں چھوڑا کرتے تھے اور معاشرے کے خوب و خراب پر ضرب لگایا کرتے تھے ۔ وہ صداقت پسند فنکار تھے اور مزاحیہ لہجے میں ان کرداروں کے اہم اوصاف بیان کرکے ان کے روزمرہ کے معمولات میں شگفتہ نکتے دریافت کرلیتے تھے اور انھیں اس خوبصورت انداز میں پیش کرتے تھے کہ پڑھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجاتا تھا ۔ 


ادبی طنز و مزاح نگاری کے اسلوبیاتی دھاروں کے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے کہ اردو مزاح نگاری میں دو اسلوبیاتی دھارے ہیں ۔اس کے متعلق گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں :

’’اردو مزاح نگاری میں اب تک دو اسلوبیاتی دھارے خاص کر سامنے آچکے ہیں ۔ ایک جو پطرس اور کنھیا لال کپور کی یاد دلاتا ہے یعنی جو خوش طبعی ، کھلنڈرے پن اور کھلے ڈلے شگفتہ انداز سے عبارت ہے اور دوسرا وہ جو رشید احمد صدیقی کی یاد دلاتا ہے اور اب مشتاق احمد یوسفی سے منسوب ہے ، یعنی متانت آمیز مزاح جس میں ادبیت اور شعریت کی چاشنی غالب ہے ۔ خوش طبعی اور شگفتگی یہاں تبسم زیرِ لب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ‘‘

(الف تماشا صفحہ 23)

بیسویں صدی کی چوتھی دہائی اور بالخصوص پانچویں دہائی اردو نثر کے جدید دور سے عبارت ہے ۔ اس دور کے طنزیہ و مزاحیہ ادب میں افکار و اسالیب کی نئی روشیں دکھائی دیتی ہیں۔ طنز و مزاح میں لطائف اور چٹکلے بازی سے قطع نظر اب طنز و مزاح میں اعلی اقدار کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھا جانے لگا۔ دیرپا ادبی تحریروں پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ۔ اس روایت کو فروغ دینے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ، احمد شاہ بخاری پطرس اور رشید احمد صدیقی کے نام سرفہرست نظر آتے ہیں ۔ 

مرزا فرحت اللہ بیگ نے ایک شاعر کی حیثیت سے بھی خود کو متعارف کرایا ۔ چند کلاسیکی شعرا کے کلام کی تدوین بھی کی ، لیکن ان کو جو شہرت حاصل ہوئی وہ ایک طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے ہوئی ۔ ان کا اہم ترین ادبی طنز و مزاح کا کارنامہنذیر احمد کی کہانی 150کچھ ان کی کچھ میری زبانیہے ، جو 1927 میں شائع ہو کر منظر عام پر آیا ۔ مولوی نذیر احمد پر لکھا ہوا ایک شاہکار خاکہ ہے جس میں فرحت اللہ بیگ نے بالکل اچھوتے انداز میں مولوی نذیر احمد کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ ان کی خامیوں اور کمزوریوں پر بھی اس انداز سے روشنی ڈالی ہے کہ ان کی شخصیت کے تمام پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں ۔ فرحت اللہ بیگ کا ایک اور خاکہ جو مزاحیہ پیرائے میں ہے وہایک وصیت کی تعمیلکے زیر عنوان ہے جس میں مولوی وحید الدین سلیم کی شخصیت کے نمایاں خد و خال پیش کیے گئے ہیں ۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کو دہلی کی ٹکسالی زبان پر خاص قدرت حاصل تھی ۔ ان کے مزاحیہ مضامین اور خاکوں کی اہم خوبی ان کی روزمرہ اور محاوروں سے سجی ہوئی ٹکسالی زبان ہے ، جو انھیں ان کے معاصرین میں ممتاز بناتی ہے ۔ 

پطرس بخاری مزاح نگاروں کی فہرست میں اس حیثیت سے جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے خالص مزاح نگاری کے فن میں طبع آزمائی کی ۔ ان کے مزاحیہ مضامین ، جن میں طنز کے عناصر بھی موجود ہیں وہ ہیںمیں ایک میاں ہوں،سنیما کا عشق،مرحوم کی یاد میںاورمرید پور کا پیر۔ ان تمام مضامین میں پطرس بخاری کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے ۔ ان کا اسلوب نہایت دلکش اور زبان نہایت پُراثر ہے ۔ پطرس مغربی طرز فکر اور خصوصاً طنز و مزاح کے مغربی انداز سے بخوبی واقف تھے ،جس کا اثر ان کی تحریروں میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین اور ہر دلعزیز فنکار تھے ، جن کی تحریروں کی شگفتگی آج بھی اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ۔ 


فکاہیہ کالم نگاروں کی فہرست میں سعادت حسن منٹو کا نام بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔ حالانکہ منٹو کو افسانہ نگاری کی وجہ سے شہرت حاصل ہے ، لیکن افسانوں کے علاوہ منٹو نے کالم نگاری میں بھی جدت طرازی کا مظاہرہ کیا ۔ منٹو نے اپنے گرد و پیش کے مضحکہ خیز اندھیروں میں روشنی کی لہریں دوڑانے کے لیے اخباری کالم نویسی کا آغاز کیا ۔ منٹو نے اپنے کالم کا عنوانتلخ و تند اور شیریںرکھا ۔ ان کے کالم انشایئے کے زمرے میں آتے ہیں ، لیکن ان میں سماجی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں پر تیکھے اور دلیرانہ طنز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ان کے کالم میں مزاح نہیں نظر آتا ہے لیکن طنز کے تیروں سے سماجی برائیوں پر نشانہ سادھنے کی کامیاب کوشش نظر آتی ہے ۔ منٹو کسی سیاسی یا مذہبی مسلک کے علمبردار نہیں تھے ، لیکن وہ اہل ثروت کی کبر و انا اور نخوت و خود بینی کو کبھی معاف نہیں کرسکتے تھے۔ معاشرے کی اخلاقی کمزوریوں کو اپنے کالمتلخ و تند اور شیریںمیں ہدف تنقید بنایا ۔تلخ و تند اور شیریںکے عنوان سے ان کے کالموں کا مجموعہ مکتب شعر و ادب لاہور سے شائع ہوا ۔ منٹو کے کالموں میں وہی بے باکی اور جرأت مندی موجود تھی ، جو ان کے افسانوں کا امتیاز رہا ہے۔ منٹو کے طنز کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے جو ان کے کالمدیواروں پر لکھناسے ماخوذ ہے :

’’بمبئی کارپوریشن نے ایک بہت لمبی دیوار جو کوئنز روڈ پر واقع ہے اور برقی ریل کی پٹری کے متوازی دور تک چلی گئی ہے ، ان اشتہاروں کے لیے مخصوص کردی گئی ہے ۔ اس دیوار کے پیچھے پارسیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں کا قبرستان اور ہندوؤں کا شمشان ہے ۔ معلوم نہیں مذہبی نقطۂ نظر سے بمبئی کارپوریشن کی حرکت درست ہے یا نا درست مگر یہ دیوار جس پر ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک نغموں کے بڑے بڑے اشتہار پینٹ ہیں ، ایک عجیب و غریب تضاد پیش کرتی ہے ۔ عقب میں ہزاروں انسان دفن ہیں ، لیکن پیشانی پر پری چہرہ نسیم بانو کی ایک بڑی تصویر نظر آتی ہے ۔ ذرا آگے بڑھیے تو موٹے موٹے حروف میںہنسو ہنسو اے دنیا والوکا اشتہار دکھائی دیتا ہے ۔ دیوار کے پیچھے جلتی ہوئی چتا سے دھواں اٹھ رہا ہے ، لیکن سامنے تھیٹرز کی فلمزندگیکا شوخ رنگ اشتہار چمک رہا ہے۔‘‘ (دیواروں پر لکھنا)

اس مختصر سے اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ منٹو کس قدر حساس فنکار تھے اور ان کی تحریروں میں طنز کے کیسے مؤثر اور دلچسپ مصوری نظر آتی ہے ، جو سماج کے تضاد کو عیاں کردیتی ہے ۔ یہی اس فنکار کا کمال ہے ۔

فکر تونسوی کا اسکولی نام رام لال اور تخلص فکر تھا ۔ وہ 17 اکتوبر 1918 کو شجاع آباد ضلع ملتان میں پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی گاؤں تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان (پنجاب) تھا ۔ وہ ابتدا میں شاعری کرنے لگے تھے ۔ ان کی چند غزلیں بھی رسالوں میں شائع ہوئیں ، لیکن انھوں نے تقسیم ہند کے بعد شاعری ترک کردی اور طنز و مزاح کو ہی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا ۔ 1954 میں روزنامہنیا زمانہمیں ایک طنزیہ کالمآج کی خبرکے عنوان سے لکھنا شروع کیا ، لیکن ان کی شہرتپیاز کے چھلکےکالم کی وجہ سے ہوئی ، جسے وہ 1955 سے دہلی کے روزنامہملاپمیں پچیس سال تک مسلسل لکھتے رہے ۔ اس طرح 1955 سے 1981 تک مسلسل یہ کالم لکھتے رہے ،جس کی وجہ سے انھیں پورے ملک میں حیرت انگیز مقبولیت حاصل ہوئی ۔ وہ ان روزمرہ کے مسائل پر اس انداز سے روشنی ڈالتے تھے کہ ہر شخص اسے اپنے دل کی بات تصور کرتا تھا ۔ ان کی سولہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں ۔ جن میں ان کی آپ بیتی بھی شامل ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے ۔ 


اردو کالم نگاری میں پاکستانی کالم نگار مشفق خواجہ کی ایک امتیازی شناخت ہے ۔ مشفق خواجہ کو زبان اور اسلوب پر بے پناہ قدرت حاصل تھی۔ انھوں نے ادبی کالم نگاری کی ابتدائی 15 نومبر 1970 کو الطاف حسین قریشی کے اخبارجسارتمیں بعنواناندیشۂ شہراورغریب شہرسے کی ۔ پھر جبجسارتکی ذمے داری محمد صلاح الدین نے سنبھالی تو مشفق خواجہ 1981 سے 1994 کے آغاز تکسخن در سخنکے تحتخامہ بگوشکے قلمی نام سےجسارتمیں کالم لکھتے رہے ۔ ان کے طنز کا نشانہ اردو کی کتابیں اور ان کے مصنفین ہوا کرتے تھے۔ ادبی کالم نگاری میں مشفق خواجہ ایک نئے طرز کے موجد ہیں ، جس کوہجوِ ملیحکہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے ۔ بعض نقادوں نے ان کی تحریروں کو جارحانہ کہا ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی تحریریں نہایت معیاری اور عالمانہ ہوا کرتی تھیں ۔ ان کی تحریر کا ایک مختصر سا نمونہ ملاحظہ کیجیے :

’’بعض کتابیں اگر شائع نہ ہوں تو اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ضائع نہ ہوجائیں ، لیکن بعض ایسی کتابیں بھی ہوتی ہیں جو شائع ہو کر ضائع ہوجاتی ہیں۔‘‘

(آپ بیتی یا آپ بیتی کی معذرت)

مشفق خواجہ کے کالموں کے متعلق مجتبیٰ حسین کی رائے بالکل درست معلوم ہوتی ہے

’’خامہ بگوش نے اپنے گہرے طنز کے ذریعے ادب کے بڑے لوگوں کو ان کا چھوٹا پن دکھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ ان کا کالم جارحانہ ضرورت ہوتا ہے ، لیکن عالمانہ اور عارفانہ بھی ہوتا ہے‘‘ ۔ (ماہنامہ کتاب نما نئی دہلی ، جولائی 1995)

مشفق خواجہ نے اپنے فکاہیہ کالموں کے ذریعے ایک مزاحیہ کرداراستاد لاغر مرادآبادیکے نام سے تخلیق کیا ۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جیسے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کی زندگی کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔ یا یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ ان کا یہ کردار انہی کا ہمزاد تھا ۔انور سدید مشفق خواجہ کی کالم نگاری کے متعلق لکھتے ہیں:

’’زندگی کا حقیقی لطف اٹھانے کے لیے ہی مشفق خواجہ نے فکاہیہ کالم نگاری اختیار کی اور اپنے اہداف پر طنز و مزاح کے سیدھے سادے وار کرنے اور ان کے اثرات دیکھنے کے لیے اپنے اصلی نام عبدالحی یا مشفق خواجہ سے پیش کرنے کی بجائےخامہ بگوشکے فرضی نام سے شائع کیے۔‘‘ (بحوالہ اردو بک ریویو ، اپریل تا جون 2009 ، صفحہ 35)


مشفق خواجہ اپنے کالموں میں نہ صرف یہ کہ لفظوں کی خانہ پری کرتے تھے ، بلکہ وہ موجودہ ادبی مسائل اور معاصر اردو شاعری پر تنقیدی اشارات سے اپنے کالموں میں حسن ، دلکشی اور معنویت پیدا کرنے کا گُر بھی جانتے تھے ۔ عصری شاعری اور معاصر ادبی منظر نامے کا مشاہدہ کرنا ہو تو مشفق خواجہ کے فکاہیہ کالموں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ ان کالموں میں اردو ادب کی حقیقی تصویر نہایت جرأتمندی اور دیانتداری سے پیش کی گئی ہے ۔ ایک تنقید نگار جو کام اپنی سنجیدہ تحریروں سے کرتا ہے وہی کام مشفق خواجہ اپنے طنز و مزاح سے بھری نگارشات کے ذریعے کرتے ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے ان کا تنقیدی انداز فکر :

’’جس طرح نمک کے بغیر کھانا بے مزہ ہوجاتا ہے اسی طرح اگر بھائی فاروقی کے کسی انٹرویو میں احمد فراز کا ذکر نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ انٹرویو نہیں پڑھ رہے ہیں کشور ناہید کی کوئی نثری نظم پڑھ رہے ہیں۔ ‘‘ (لوحِ جہاں پر حرفِ مکرّر)

کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے مقابلے پاکستان میں کالم نگار زیادہ پیدا ہوئے ۔ وہاں کالم نگاری کی روایت بہت زیادہ مستحکم رہی ہے ۔ پاکستان کے بڑے کالم نگاروں میں ایک نام نصر اللہ خاں کا ہے۔ ان کی پیدائش 1930 میں پاکستان میں ہوئی ۔ ان کے قلم میں بڑی معنی خیزی نظر آتی ہے ۔ روزنامہحریتکراچی میںآداب عرضکے عنوان سے ان کے کالم روزانہ شائع ہوتے تھے ۔ جب ان کے کالم اس اخبار میں شائع ہونا شروع ہوئے تو بڑے بڑے جغادری کالم نگار چونک پڑے کہ یہ کون کالم نگار آگیا ہے جو ہم لوگوں کی چھٹی کرنے پر تُلا ہوا ہے ۔ صاف ستھرا بیانیہ انداز ، بے باک لہجہ اور خوبصورت اسلوب بیان ان کی تحریروں کا وصف قرار پایا ۔ سیاست ، معاشرت ، معاشرتی تضاد کو انھوں نے اپنی طنزیہ تحریروں کے لیے موضوع بنایا ۔ اپنے کالمآداب عرضکے ذریعے کالم نگاری کے میدان میں ایسی چھاپ چھوڑی کہ کوئی بھی دوسرا کالم نگار اس چھاپ کو مٹانہ سکا ۔ 

حیدرآباد میں پیدا ہونے والے مشہور مزاح نگار پدم شری مجتبیٰ حسین کے بھائی ابراہیم جلیس کو پاکستانی کالم نگاروں کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ وہ ہندوستان میں جب تک تھے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی شخصیت اور علمیت کا جوہر دکھاتے رہے ، لیکن جب پاکستان ہجرت کرگئے تو وہاں کالم نگاری کے ذریعہ اپنی فنکاری اس انداز میں دکھائی کہ پاکستانی کالم نگاروں کی صف میں ایک شوخ اور طرار کالم نگار کے طور پر اپنی شناخت قائم کی ۔ ان کی سرشت میں ہی بغاوت تھی ۔ وہ ہندوستان میں جب تک رہے علم بغاوت کو کبھی نیچا نہیں ہونے دیا اور جب پاکستان گئے تو وہاں بھی پرچم بغادت بلند کرنے سے ذرا بھی جھجک نہیں محسوس کی ۔ ان کی تحریروں میں مزاح کم اور طنز زیادہ ہے ۔ پاکستان کے عوام نے ابراہیم جلیس کے تیکھے اسلوب اور نڈر سچائی کا کھل کر ساتھ دیا ۔ حکمراں ان کی تحریروں سے سہمے رہتے تھے ۔ ان کے قلم کی کاٹ نے بڑے بڑوں کو ڈرنے پر مجبور کردیا تھا ، کیونکہ وہ بیباک ،بے لاگ ،نڈر اور جرأت مند کالم نگار تھے ۔ ان کی تحریروں میں مصلحت نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی ۔ وہ جو دیکھتے تھے اسے مِن و عَن لکھ دیتے تھے ۔ معاشرے کی اونچ نیچ کو اسی انداز سے اپنی فکاہیہ تحریروں میں پیش کرتے تھے ، جس انداز سے وہ سماج میں دکھائی دیتی تھیں ۔ ابراہیم جلیس کی طباعی اور طنزیہ انداز ملاحظہ کرنے کے لیے یہ مختصر اقتباس ملاحظہ کیجیے ، جو ان کے کالموزیر کی تہبندسے ماخوذ ہے :

’’کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے آدمی کو شوخیِ تقدیر سے بہت بڑی دولت مل گئی ۔ چھوٹے آدمی کو بڑا روپیہ ملنا ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بندر کے ہاتھ استرا لگ جائے ۔ جس طرح بندر شیو بنانے کی کوشش میں اپنا سارا چہرہلہولہانکرلیتا ہے ، اسی طرح چھوٹا آدمی بڑی دولت پانے کے بعدلہو ولعبمیں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ‘‘


ابن انشا پاکستانی کالم نگاروں کے ہر اول دستے میں شامل تھے ۔ وہ ایک کامیاب کالم نگار تھے ۔ ان کا کالم پڑھنے کے لیے لوگ منتظر رہا کرتے تھے ۔ ان کا اصل نام شیر محمد خاں اور قلمی نام ابن انشا تھا ۔ وہ 15 جون 1927 کو ضلع جالندھر کے گاؤں تھلہ میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم تو صرف میٹرک تک ہی حاصل کرپائے ، لیکن نظم و نثر میں ایسے جوہر دکھائے کہ شائقین ادب ان کے دیوانے ہو کر رہ گئے ۔ ابن انشا نے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا ۔ ان کی پہلی مشہور نظمبغداد کی ایک راتسویرا لاہور میں 1949 میں شائع ہوئی ۔ غزل میں بھی انھوں نے جدّت طرازی کا مظاہرہ کیا ، لیکن ان کی شناخت طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے قائم ہوئی ۔ کالم نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری بھی چلتی رہی ۔ شاعری میں درد وکرب کی آمیزش تھی ، لیکن کالموں کے ذریعے لوگوں کو ہنساتے تھے ۔ ابن انشا نے پانچ مزاحیہ سفر نامے لکھے جو اس طرح ہیں ۔ (1)چلتے ہو تو چین کو چلیے (2)آوارہ گرد کی ڈائری (3)دنیا گول ہے (4)نگری نگری پھرا مسافر (5) ابن بطوطہ کے تعاقب میں ۔ یہ پانچوں مزاحیہ سفر نامے شائع ہو کر مقبول ہوئے ۔ ابن انشا کے فکاہیہ کالم روزنامہجنگکراچی میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ فکر تونسوی ابن انشا کے کالموں کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ابن انشا کا کالم جب بھی روزنامہجنگکراچی میں شائع ہوتا تھا تو لوگ اسے پڑھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوجاتے تھے ، اور پھر کون تھا جو اس کا کالم نہیں پڑھتا تھا ۔ بغل گیری سے کون محروم رہنا چاہتا تھا‘‘ ۔ (پندرہ روزہ چنگاری ، کالم نگار نمبر ، صفحہ 273)

ابن انشا کی کالم نگاری کی خصوصیات میں سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کی مزاحیہ تحریریں نہ صرف تفنّن طبع کے لیے پڑھی جاتی تھیں بلکہ ان میں غور و فکر کی دعوت بھی ہوتی تھی ۔ وہ سنجیدہ موضوع کو بھی اس انداز سے پرتکلف پیرائے میں پیش کرتے تھے کہ قاری زیر لب تبسم ریزی کے بغیر نہیں رہ پاتا تھا ۔ وہ اپنی شوخی طبع اور دلکش اسلوب سے اردو کے طنز و مزاحیہ ادب خصوصاً کالم نگاری کی تاریخ میں زندہ و تابندہ رہیں گے ۔ ان کی شوخی ، ظرافت اور طنزیہ انداز سے واقفیت کے لیے ان کے یہ جملے کافی ہیں جو ان کے کالمپانی بند رہے گاسے اخذ کیے گئے ہیں :

’’ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد کے باشندوں کو مژدہ ہو کہ جمعے اور ہفتے کو ان کے گھروں کا پانی بند رہا کرے گا ۔ یہ سہولت روزانہ تئیس گھنٹے پانی بند رہنے کی سہولت کے علاوہ ہے ۔ یعنی مجبوریوں کی وجہ سے فی الحال ہفتے میں دو دن سے زیادہ مکمل طور پر بند رکھنا ممکن نہیں ۔ ناغے کے دنوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھائی جائے گی ۔ امید کی جاتی ہے کہ ماہِ محرم کی آمد تک ہم ہفتے میں ساتوں دن پانی بند رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔‘‘


(کالمپانی بند رہے گاکالم نگار ابن انشا)

پاکستان کے تقریباً تمام اخبارات میں مزاحیہ کالم پابندی سے شائع ہوتے تھے اور پاکستان میں یہ سلسلہ کم و بیش تمام اخبارات میں اب بھی جاری ہے ۔ اب جبکہ وہاں بھی شوکت تھانوی ، ابراہیم جلیس ، مجید لاہوری اور ابن انشا جیسے بلند پایہ کالم نگار نہیں رہے ، لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ بعد کے کالم نگاروں میں مشفق خواجہ ، انتظار حسین ، منو بھائی ، عطاء الحق قاسمی ، اختر امان ، انجم اعظمی ، انجم رومانی ، محسن بھوپالی جیسے بڑے کالم نگاروں نے کالم نگاری کی روایت کو استحکام بخشا ۔ آج بھی پاکستان میں اردو مزاحیہ و طنزیہ کالم نگاروں کی کمی نہیں ہے ، لیکن اس کے مقابلے میں ہندوستان میں کالم نگاروں کی تعداد بہت کم ہے ۔ فکاہیہ کالم نگاری کو ہندوستان میں کم ، لیکن پاکستان میں بہت زیادہ رواج حاصل ہوا ۔ بیسویں صدی کے نصف آخر پر محیط اگر کسی ہندوستانی طنز و مزاح نگار کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ مجتبیٰ حسین کا ہے ۔ کم و بیش پچاس برسوں سے مجتبیٰ حسین کی کالم نگاری کا سلسلہ جاری ہے ۔ وہ آج بھی اپنی کالم نگاری کو جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ ان کی عمر 80 برس سے زائد ہوچکی ہے ۔ 1962 میں انھوں نے روزنامہ سیاست حیدرآباد میں مزاحیہ کالم نگاری کا آغاز کیا ۔ روزنامہ سیاست جو 1949 میں جاری ہوا ، جس میںشیشہ و تیشہعنوان سے مشہور کالم نگار شاہد صدیقی فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ ان کی موت کے بعد روزنامہ سیاست میںکوہ پیماکے قلمی نام سے تقریباً 15برسوں تک مجتبیٰ حسین اپنا کالم لکھتے رہے ۔ ان کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر نےشیشہ و تیشہلکھنے کی ذمے داری انھیں سونپی اور پھر وہ تعلیم سے فراغت کے بعد اس کالم کو مسلسل لکھتے رہے ۔ 1972 میں ملازمت کے سلسلے میں دہلی جانے کے بعدشیشہ و تیشہکالم لکھنا ذرا دشوار ہوگیا ۔ چنانچہ انھوں نے ہفتہ واری کالم لکھنے کا فیصلہ کیا اور سیاست کے سنڈے ایڈیشن کے لیےمیرا کالمعنوان کے تحت لکھنے لگے ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، لیکن اب پندرہ دنوں میں ایک بار ان کا کالم شائع ہوتا ہے جو ان کی پرانی تحریروں پر مشتمل ہوتا ہے۔میرا کالملکھنے کا آغاز انھوں نے 1995 میں روزنامے سیاست (حیدرآباد) کے سنڈے ایڈیشن میں کیا تھا ۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے کالموں میں زندگی اور اس کے مظاہر کو ایک متوسط طبقے کے آدمی کے زاویۂ نگاہ سے دیکھا ہے اور اسے اپنی تحریروں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس لیے ان کی تحریروں میں تلخ و شیریں دونوں قسم کے احساسات کی جلوہ سامانی نظر آتی ہے ۔ ان کے مزاحیہ کالموں میں طنز کی تلخی تو ضرور ہوتی ہے ، لیکن اس کے پس پردہ انسان د وستی اور دردمندی کا احساس بھی پوشیدہ ہوتا ہے ۔ انھیں خود پر ہنسنے کا ہنر بخوبی آتا ہے ۔وہ جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں کسی نہ کسی طرح اپنی بات کو منوانے اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے میں ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ساتھ ہی طنز کااثر بھی قائم رکھتے ہیں ۔ بات سے بات پیدا کرنے کا فن انھیں اچھی طرح آتا ہے ۔ وہ کبھی کبھی اپنی تحریروں کو پرلطف بنانے کے لیے لطیفوں کا بھی سہارا لیتے ہیں ، لیکن زبان کے وقار کو کبھی مجروح ہونے نہیں دیتے ۔ مجتبیٰ حسین فی الوقت ہندوستان کے سب سے بڑے کالم نگار تصور کیے جاتے ہیں ۔ ان کی شگفتہ کالم نگاری کے باب سے ایک مختصر سا اقتباس :

’’اتنے برسوں تک بھانت بھانت کے رکشاؤں میں بیٹھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب گھوڑے کی قسمت پھوٹتی ہے تو وہ تانگے میں جوت دیا جاتا ہے اور جب انسان کی قسمت پھوٹتی ہے ، تو وہ رکشے چلاتا ہے اور جس شخص کی قسمت کسی وجہ سے پھوٹنے نہیں پاتی بلکہ پھوٹنے کی منتظر رہتی ہے ، تو وہ رکشے میں بیٹھ جاتا ہے ۔ کئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ قسمت کے ساتھ ساتھ ہم بھی پھوٹتے پھوٹتے رہ گئے ۔ ہزار بار رکشے والوں کو سمجھاتا ہوں کہ میاں سلامتی کی چال چلو کہ زندگی میں یہی کلیدِ کامیابی ہے تو وہ مجھ سے کہتے ہیں۔ ’’حضور سلامتی کی چال چل کر تو اس نوبت کو پہنچے ہیں اور اب مزید سلامتی کی چال چلیں تو زمانہ قیامت کی چال چل جائے گا اور ہم منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔‘‘ 


کالم یہ رکشا والے

اس اقتباس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجتبیٰ حسین معمولی سی معمولی بات کو بھی کس خوبصورت پیرائے میں بیان کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور طنز و مزاح کی آمیزش کے ذریعے مضمون کو نہایت دلچسپ بنادیتے ہیں ، لیکن ان کی مزاحیہ و طنزیہ تحریروں میں ادبیت پر کوئی حرف نہیں آپاتا ہے ۔ 

ہندوستان کے نامور مزاح نگاروں اور کالم نگاروں میں یوسف ناظم کا نام بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ۔ انھوں نے مزاحیہ مضامین اور خاکے ہی نہیں لکھے ، بلکہ اپنے تبصروں اور تنقیدی تحریروں میں بھی مزاح کا رنگ بھرنے کی کوشش کی ۔ ان کے کالموں میں مزاح زیادہ اور تلخی کم ہوتی ہے یعنی طنز کا عنصر ان کے مضامین میں کم پایا جاتا ہے ۔ لیکن طنز کے تیر چلانے سے موقع بہ موقع چوکتے بھی نہیں ہیں ۔ یوسف ناظم نے اپنے عہد کی سماجی اور سیاسی ادبی و ثقافتی تبدیلیوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور یہی مطالعہ ان کی تحریروں کا حصہ ہے ۔ انھوں نے اپنے عہد کی سماجی ، سیاسی ، ادبی ، تہذیبی ، اجتماعی اور فرد کی ناہمواریوں کا جو تحریری طور پر جغرافیہ بیان کیا ہے اس میں مزاح کی شگفتگی ہر جملے میں نظر آتی ہے ۔ یوسف ناظم کے طنز و مزاح پر مشتمل کالموں میں ذاتی ، سماجی ، سیاسی ، ادبی ، ملکی ، بین الاقوامی مسائل اور افراد کی اضطرابی کیفیت اور غم انگیزی محسوس ہوتی ہے جس کا اپنے مضمون میں وہ نہایت پُرمزاح انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ اس میں ان کی داخلی حسیت اور خارجی کیفیت کا بڑا دخل ہے ۔ معاشرے میں پائے جانے والے اخلاقی بحران کی غم انگیزی جس پر انھوں نے طنز و مزاح کی صورت میں اظہار خیال کیاہے وہ روایتی نہیں بلکہ کالم نگار کے ہاں جس اندرونی اضطراب و تشنگی کا احساس ہوتا ہے ، ان میں بعض انھیں کے عہد اور بعض ان کے ذاتی فکر و شعور کا نتیجہ ہیں ۔ اس کی دلیل میں ان کے ایک کالمکوئی صورت نظر نہیں آتیسے یہ چند سطریں دیکھیں :

’’بعض صورتوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے بدن پر نشانات دیکھتے ہی تجربہ کار لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ شخص سچ بول کر چلا آرہا ہے ۔ اسی خوشی میں اس شخص کی ہلدی اور پھٹکری سے تواضع کی جاتی ہے ۔ عورتوں اور مردوں میں فرق یہ بھی ہے کہ عورتیں خوشی کے موقع پر ہلدی میں رنگی جاتی ہیں ۔ مردوں کی قسمت میں بھی ہلدی ہوتی ہے ، لیکن صرف اس وقت جب ان سے سچ کہلوایا گیا ہو۔ ‘‘

یوسف ناظم نے روزنامہانقلاباوربلٹزبمبئی میں سماج کے مختلف موضوعات پر سیکڑوں کالم تحریر کیے جو کافی مقبول ہوئے۔ 


لکھنؤ سے شائع ہونے والے روزنامہقومی آوازمیں حیات اللہ انصاریگلوریاںکے عنوان سے فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے ، جس میں سیاسی اور کبھی کبھی ادبی موضوعات پر دلچسپ مزاحیہ تحریریں ہوتی تھیں۔ لیکن 1957 میںگلوریاںلکھنے کی ذمے داری احمد جمال پاشا نے سنبھال لی تھی ، جو تقریباً دس برس تک اس کالم کو لکھتے رہے اور قارئین کو اپنی تحریروں سے ہنساتے رہے ۔ ان کے قلم میں بے ساختگی ، بے خوفی اور شگفتگی تھی اس لیے اتنے دلچسپ کالم لکھ ڈالے جو بیک وقت وقتی اور مستقل حیثیت دونوں کے آئینہ دار تھے ۔ احمد جمال پاشا منشی سجاد حسین کےاودھ پنچسے بہت متاثر تھے ۔ اس لیے انھوں نےپنچکے عنوان سے ایک رسالہ بھی جاری کیا ۔ چند سالوں کے بعد لکھنؤ سے سیوان کے ذکیہ آفاق کالج میں لکچرر بن کر چلے آئے اور پھر ان کاگلوریاںکالم لکھنے کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ بعد ازاںگلوریاںلکھنے کی ذمہ داری عبدالمجید سہالوی نے سنبھالی اور مستقل لکھتے رہے ، لیکن اس کالم میں پہلے والی بات نہ رہی ۔ جس کی مقبولیت میں رفتہ رفتہ کمی آتی گئی ۔ 1980 میںقومی آوازکا دہلی ایڈیشن شائع ہوا تو اس میں متعدد مہمان کالم نگار شریک ہوئے ، جن میں من موہن تلخ ، سعید سہروردی ، کمال احمد صدیقی اور شمس کنول کے نام قابل ذکر ہیں ۔ 1995 میں دلیپ سنگھ نےگل گفتکے نام سے جو کالم لکھے وہ نہایت دلچسپ تھے ۔ ان میں طنز کی دھیمی آنچ بھی تھی اور مزاح کا نمایاں رنگ بھی موجود تھا ۔ بمبئی کے روزنامہانقلابمیں موصوفدیدۂ حیراںکے عنوان سے بھی فکاہیہ کالم لکھتے تھے ۔


مذکورہ کالم نگاروں کے علاوہ نصرت ظہیر جوقومی آوازمیں چیف رپورٹر تھے ، انھیں فکاہیہ کالم نگاری کی ذمے داری سونپی گئی ۔قومی آوازسے قبل وہملاپاورتیجاخبارات میں کام کرچکے تھے ۔ وہ شروع میںدہلی ڈائریکے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ ایک سال تک جاری رہا ۔ ایک سال کے بعد اس کا عنوان بدل کرتحت اللفظرکھ دیا گیا ۔ تحت اللفظ کے عنوان کے تحت تین سال تک فکاہیہ کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ جس میں تازگی اور شگفتگی دونوں خوبیاں موجود تھیں ، لیکن ان کی دوسری مصروفیات کی وجہ سے یہ سلسلہ قدرے توقف کے ساتھ چلتا رہا ، یعنی اس میں پابندی نہیں ہوپاتی تھی اور بالآخر یہ سلسلہ بند ہوگیا ۔ کئی برس تک نصرت ظہیر نہایت پابندی سے روزنامہراشٹریہ سہارانئی دہلی میں اپنا کالمنمی دانمکے عنوان سے لکھتے رہے ۔ان کے علاوہ اسد رضا بھی موجودہ فکاہیہ کالم نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں ، جن کی ظرافتی تحریریں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ 

ہند وپاک میں بیسیوں ادبی طنز و مزاح نگار کے شمع روشن کیے ہوئے ہیں اور آج بھی ان کالم نگاروں کی تحریریں بڑی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں ، لیکن اب ادبی کالم نگاروں کا یوں سمجھیے کہ قحط پڑچکا ہے ۔ کالم نگاری کو ہندوستان میں فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ 


Post a Comment

Previous Post Next Post