solved assignments aiou, solved assignments 2022, urdu assignments, ma urdu, code 5618
شاہ حسین کا علامتی نظام
شاہ حسین (۱۵۹۹-۱۵۳۸) کے کلام کی تدوین کے لئے
مربوط شعوری اور انفرادی کوششوں کی ابتدا کہیں 20 ویں صدی کے آغاز سے ہو گئی تھی۔
مختلف قلمی بیاضیں ، قلمی نسخے اور قلمی مسودے اس باقاعدہ تدوین کی بنیاد بنے۔
مشہور قلمی بیاضوں میں دو کا ذکر ضروری ہے، پہلی بیاض سید شرافت نو شاہی بحروف
اردو تھی جو ایک محتاط اندازے کے مطابق 1770ء کی حدود میں لکھی گئی۔ دوسری بیاض ،
مملوکہ پروفیسر دیوندر سنگھ ودیارتھی ہے۔ بیاض اندازاً 1800ء کے زمانے میں تحریر ہوئی۔
قلمی نسخوں اور مسودوں کی ایک لمبی فہرست ہے جو پنجاب یونیورسٹی لاہور پنجاب
یونیورسٹی چندی گڑھ، خالصہ کالج امرتسر، کتب خانہ بھاشا وبھاگ پٹیالہ اور کئی
صاحبان علوم فنون کے ذاتی کتب خانوں کی زینت ہیں ۔
کلام شاہ حسین پہلی دفعہ 1901ء میں کتابی صورت کا حصہ بنا جب’’ شبد شلوک بھگتاں
دے‘‘ مطبوعہ‘ مطبع مفید عام لاہور بحروز گر مکھی چھپی’’ شبد شلوک بھگتاں دے‘‘شمالی
ہندوستان کے مختلف سدھوں ، ناتھیوں ، بھگتوں اور صوفیوں کی شاعری کا انتخاب ہے جس
میں شاہ حسین کی 130 سے زائد کافیاں شامل کی گئیں ۔
حسین کی کافیوں کا ایک انتخاب میسرز جے ایس سنت سنگھ نے ’’کافیاں شاہ حسین کیاں ‘‘
1915ء میں چھاپا اس کتابی صورت میں چھپنے والے انتخاب میں حُسین کی کل 25کافیاں
درج ہیں ۔ ان کافیوں میں متن ترتیب اور وزن تینوں سطح پر سقم پایا جاتا ہے۔ 1934ء
میں باوا بدھ سنگھ نے مشہور کلاسکی پنجابی شعرا کا منتخب کلام ’’ہنس چوگ‘‘ چھاپا
جس میں شاہ حسین کی 19کافیاں دی گئیں ۔ ان میں ایک کافی ’’شک پٹیاں بے شک ہوئی‘‘
کسی اور انتخاب کا حصہ نہیں ہے۔
کلام شاہ حسین کی تدوین اور انتخاب کو پہلی کامیاب علمی سرگرمی ڈاکٹر موہن سنگھ
دیوانہ نے 1942ء میں ’’مکمل کلام شاہ حسین لاہوری‘‘ چھاپ کر دکھائی۔ ڈاکٹر دیوانہ
کی یہ تالیف بحروف اردو ہے۔ جو پہلی اشاعت کی سات دہائیوں بعد بھی حسین کے کلام کے
تناظر میں بنیادی حوالہ مانی جاتی ہے۔ شاہ حسین کے حوالے سے بعد میں چھپنی والی
تمام کتابیں کسی نہ کسی سطح پر اپنے اعتبار کو اس کتاب کی طرف ضرور رجوع کرتی ہیں
۔ ’’حسین چناولی‘‘ پروفیسر پیارا سنگھ پدم کی تحقیقی کاوش ہے جو 1967ء میں بحروف
گورمکھی چھپی۔ یہ کتاب بھی شاہ حسین کی کافیوں کا انتخاب ہے جس میں 151کافیاں
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی تالیف سے ہی لی گئیں مگر گیارہ کافیاں ایسی ہیں جنہیں
مولف نے دیگر ذرائع سے اکٹھا کیا۔ کچھ شلوک اور کافیاں ایسی بھی ہیں جو ڈاکٹر
دیوانہ کے انتخاب میں تو شامل ہیں مگر پروفیسر پدم نے انہیں اپنی کتاب میں شامل
نہیں کیا۔ شاہ حسین کی کافیوں کے اس انتخاب میں حسین رچناولی اس لیے بھی اہم ہے کہ
اس میں متن کی اصلاح کی اولین کا سراغ
ملتا ہے اوزان کے مسائل کم ہیں ، مصرعے رواں اور ترتیب بہتر ہے۔ کافیوں کی ترتیب
مضامین کے اعتبار سے رکھی گئی جس کی بنیاد مولف کے ذاتی مشاہدے پر ہے۔
ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ کی تالیف ’’مکمل کلام شاہ حُسین لاہوری‘‘ پر بنیاد کر کے
1966میں مجلس شاہ حُسین نے ’’کافیاں شاہ حُسین‘‘ کے نام سے حُسین کا کلام چھاپا،
اس انتخاب میں کچھ کلام ڈاکٹر دیوانہ کی تالیف کے علاوہ بھی تھا۔
1979ء ڈاکٹر سید نذیر احمد کی کتاب ’’کلام شاہ حسین‘‘ شاعر کے کلام کو سمجھنے کے
لئے معنی اور شخصیت کی پرتیں کھولنے کی مخلصانہ کاوش ہے۔ متن Text پر ان کا کام انہیں تمام مولفین ، مرتبین اور محققین سے
ممتاز کرتا ہے۔ بلا شبہ ڈاکٹر سید نذیر احمد تہذیبی مزاج کے حامل ایک بڑے آدمی
تھے۔ مگر وہ شاہ حسین کو ثقافتی تاریخ Cultural
historyتقابلی ادب، اور شمالی ہندوستان میں 14ویں
، 15ویں اور 16ویں صدی میں جنم لینے وای مختلف فکری اور سماجی تحریکوں کے پس منظر
میں رکھ کر نہ دیکھ سکے۔ اس کے باوجود شاہ حسین کی تفہیم کو ان کے اشارے اور حاشئے
ایک سمیت نما کا کام دیتے ہیں ۔
شاہ حُسین کے متن پر ڈاکٹر نذیر احمد کی تجزیاتی رسائی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
انہوں نے مختلف متون کو اکٹھا کیا۔ اس چھانٹا پرکھا، ان کا تقابل کیا، اپنی تحقیق
اور تجزئیے کو اپنے زمانے کے علمی اور ادبی لوگوں کے ساتھ Shareکیا۔
یوں ڈاکٹر نذیر احمد کی ان تھک کوششوں سے ہمیں شاہ حسین کا ایک ایسا متن ملا جو
پیشتر تمام متون کے مقابلہ میں بہتر ہے۔
محمد آصف خان نے 1987ء میں مجلس شاہ حُسین کے شائع کردہ انتخاب ’’کافیاں شاہ
حُسین‘‘ کو پنجابی ادبی بورڈ کی طرف سے چھاپا محمد آصف خان پنجابی زبان و ادب کے
ساتھ جذباتی علمی اور فکری تینوں سطح پر جڑے ہوئے تھے۔ 1988ء والے اس انتخاب میں
محمد آصف خان نے کچھ ترامیم و اضافے کئے، حسب ضرورت ہر کافی کی لغت بنائی اور
استھائی کو ہر انترے کے بعد دہرانے پر زور دیا۔ استھائی کو دہرانے کی رمز ہر انترے
کے مضمون کو کلیت (Totality)میں
استھائی کے بنیادی مضمون کے ساتھ منسلک کرتی ہے۔ شاہ حسین کے متن کے حوالے سے معلوم کوشش ’’کلام حضرت مادھو لال‘‘ کی صورت میں
مقصود ثاقب نے کی ہے۔ جس نے محتاط رویہ اپنا کر کئی کافیوں میں برمحل ، متن کی
غلطیاں اور بھلیکے دور کئے۔مقصود ثاقب نے کافیوں کی لغت میں اضَافہ کیا جس سے کافی
اور شاہ حسین دونوں کو سمجھنے میں قاری کو آسانی ہوئی۔
بلاشبہ شاہ حُسین پنجاب کی شعری روایت کا اہم ترین تخلیقی نمائندہ ہے۔ تصوف میں اس
کی پیش رفت نے انسانی رشتوں کی سچائی کے ساتھ جڑ کر اس کے لہجے میں نرمی، مناسبت
اور زندگی کا تحرک پیدا کیا۔ بابا فرید کے بعد شاہ حسین ہی وہ سنگ میل ہے جس نے
پنجاب کے تناظر میں شعری اور وجودی اظہار سے ترکیبی ثقافت کی تشکیل کے لئے بھرپور
معاونت کی۔ پنجابی شعریات کو شاہ حسین نے نئے مضامین نئے استعاروں نئی تراکیب سے
متعارف کروایا۔
٭ سوئیر اتیں لیکھے پوسن ، نال صاحب دے
جالیں آں
٭ راہ عشق دا سوئی دا نکّا ، دھاگہ ویں
تاں جاویں
٭ رات ہنیری بدل کنیاں
باجھ وکیلاں مشکل بنیاں
ڈاڈھے کیتا سڈوے اڑیا
٭ ہور نال نال ادھا کریندی ساتھوں وی
کُج ہتھ لے
٭ کورا گئی ہنڈا ، کوئی رنگدار نہ لیتا
بھریا سر لیلا ، کوئی بک ، جھول نہ پیتا
٭ سالُو دُھر کشمیر دا ، کوئی آیا
ہرناں چیر دا ، جانا کر کے راہے
سالُو دھُر گجرات دا ، کوئی میں بھو پہلی رات دا ، کتّے ڈھنگ بہائے
٭ عشقے دے در آئیکراہیں ، منصور قبولی
سولی
٭ تن وچ طاقت رہی نہ مُولے ، رو رو حرف
پچھایندا
٭ اُچھل ندیاں تارو ہوئیاں وچ بریتا
کیہا
٭ کالے ہرناں چرگیوں شاہ حسین دے بنّے
٭ اندر بولن مرغیاں تے باہر بولن مور
٭ جے ٹک رانجھا دکھاوے ، ہیر عذابوں چھٹے
پنجابی ، ہندی شعری روایت کے تحت مضامین اور تشبہیات سے معنی میں رنگ بھرے جاتے
ہیں اور شعری آہنگ کو نسبتاً بلند رکھا جاتا ہے۔ شاہ حسین اس روش میں تبدیلی لائے
انہوں نے جانچا مضامین کے اندر اور کہیں کہیں مضامین سے الگ استعمارے کا استعمال
کیا، شعر میں معانی کے اسرار کو سنبھالا، تراکیب میں ندرت پیدا کی، گرد و پیش کی
دنیا کو موجود اور پیش آمدہ حقیقتوں کے ساتھ رکھ کر دیکھا۔ حسین کے کلام اور نقطۂ
نظر میں گہرائی اور معنی کی توسیع نظر آتی ہے۔
وہ نازک سے نازک معاملہ پر اتنی آسانی اور سہولت سے اتنی گہری بات کر جاتا ہے کہ
سمجھنے میں عمریں صرف ہو جاتی ہیں زبان کے ساتھ معاملہ کرنے، اسے برتنے میں شاہ
حسین کا کمال قاری کو حیران کر دیتا ہے۔ وہ زبان کے استعمال میں نہ جانے کتنے
امکانات اور تشکیلات کے در وا کرتا رہتا ہے مگر مجال ہے جو کوئی لسانی تضاد یا نقص
برآمد ہو۔
اس سب کے باوجود مگر اس کی شخصیت پر سب سے زیادہ بہتان طرازی ہوئی، اس کی طرز
زندگی کا مذاق اڑایا گیا۔ اس کی بین المذاہب دوستی کو جنسی زاوئیے سے دیکھنے کی
کوششیں ہوئیں اس کو ملامتیہ کہا اور مشہور کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے متن
کو اس قابل بھی نہ سمجھا گیا کہ اس پر سنجیدہ انفرادی کوششوں سے یا اجتماعی سطح پر
مل کر نظر ڈالی جائے مگر
’بڑی شاعری کی یہ عجیب و غریب خصوصیت ہے کہ وہ اکثر و
بیشتر اپنے خالق سے بے نیاز ہو جاتی ہے پھر اس کے وجود سے شاعر کا وجود پہچانا
جاتا ہے۔ کیوں کہ اس (شاعر) کی زندگی کے حالات گزرے ہوئے زمانے کے دھندلکے میں کھو
جاتے ہیں اور واقعات انسانوں کا لباس پہن لیتے ہیں ۔پرانی تاریخ نگاری چونکہ
بادشاہوں پروہتوں اور سورماؤں کے گرد گھومتی تھی اور انہی کی داستان کو اپنا
سرمایہ سمجھتی تھی اس لئے اس نے ہمیشہ باغیوں ، شاعروں ، اور فن کاروں کو نظر
انداز کیا۔ صرف جزا وسزاکے افسانے باقی رہ گئے(کسی کا منہ موتیوں سے بھر دیا گیا
اور کسی کی گستاخ زبان گدی سے کھنچ لی گئی) لیکن وقت کا انتقام بڑا سخت ہے۔
بادشاہوں کے کارنامے تاریخ کی کتابوں میں بند ہیں اور شاعروں کے کارنامے دِلوں کے
اندر درد اور مسرت کی لہریں بن کر اتر گئے ‘‘۔۱
موسیقی، تاریخی اعتبار سے ، زبان سے
پہلے وجود میں آئی ، سروں کے آہنگ سے جذبات کی ترسیل اور تبادلے کا کام لیا گیا۔
موسیقی میں زبان کا خام استعمال زبان کی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی شروع ہو گیا
تھا۔ زبان کا یہ استعمال تہذیبی ارتقا سے شاعری کی صورت اختیار کر گیا تہذیب
انسانی کے آغاز میں بولنے اور گانے کا فرق کم کم تھا۔ موسیقی کے آہنگ پر ہی زبان
کا آہنگ استوار ہوا۔ شاعری کے اولین خدوخال موسیقی کے حوالے سے ہی نکالے گئے۔
ہندوستانی شعری روایت اور موسیقی کا ساتھ چولی دامن کاہے۔ شعر ، زبان کی ترقی
یافتہ شکل اور زبان خود صوتیات کا مجموعہ ہے۔ نسل انسانی نے صوتیات کی شناخت کو
پختہ کر کے اس میں کثیر الجہت معانی شامل کئے تاکہ انسانی زندگی اجتماعی شکل میں
آگے بڑھ سکے۔
ایک علیحدہ اور قابل ذکر زبان کے طور پر پنجابی تقریباً 11ویں صدی میں
ابھری۔ پنجاب کا ابتدائی ادب 9 ویں اور 10ویں اور 11ویں صدی میں تخلیق ہوا۔ سدھوں
اور ناتھیوں جوگیوں نے اس کی بنیاد رکھی، وہی ابتدائی نمائندہ شاعر تھے۔ ان میں
گورکھ ناتھ اور چرپٹ ناتھ قابل ذکر ہیں ۔ گو ناتھیوں کی شاعری میں پانچ زبانوں ،
ہندی ، ہریانی، پنجابی، راجھستانی اور گجراتی کا میل ہے جس میں غالب عنصر پنجابی
کا ہے۔
درویس سوئی جو در کی جانے
پنجے پون اپوٹھاں آنے
سدا سچیت رئے دن راتی
سو درویس اللہ کی جاتی
گگن منڈل میں سنی دوار
بجلی چمکے گھور اندھار
تامہی نیندرا آوے جائی
پنج تت رہے
سمائی۲
بابا فرید (1173-1266)سے پہلے پنجابی ادب کی روایت غیر نوشتہ اور شعری ہے جس کا انحصار موسیقی پر ہے۔ اس کی بنیاد بحور و اوزان کے فنی قواعد کے حوالے سے (ماترے) چھند اور ورنک پر ہے۔ چھند یعنی ماترائی نظام میں اوزان ڈھیلے ڈھالے ہوتے ہیں یہ اوزان یتی (وقفہ) اور گتی (رفتار) کے اصولوں پر کھڑے کئے گئے۔ ورنک کا اصول بنیادی طور پر اجزائی اور حروفی ہے مگر اپنے اعتبار کو پلٹ پلٹ کر موسیقی کی طرف دیکھتا ہے۔ ہندوستان میں دراوڑی روایت اور بعد از آریا وجودی مذہبی استغراق کے زیر اثر موسیقی کی جو شکل نکلی وہ ترقی یافتہ تھی وہ ہندوستانی سماج کے رگ و پے میں سرائت کر گئی۔ اس موسیقی نے سب سے زیادہ شاعری کو اپنی گرفت میں لیا ہے یہ شاعری سینہ بہ سینہ منتقل ہوئی اور منزل بہ منزل گائی گئی۔ جس سے نتیجتاً متن کی صحت کا خیال نہ رکھا جا سکا۔ یہ تبدیل ہوتا رہا کہ اس طرز عمل سے چونکہ انحصار لفظوں کے دردبست سے زیادہ سروں کے زیر و بم اور ان کی تقسیم پر تھا۔ مختلف لہجوں کی آمیزش نے ہر علاقے کے اپنے اپنے جغرافیائی پس منظر میں ، لفظ کو بدلنے کی حوصلہ افزائی کی۔ لفظ کے بدلنے سے معنوی تاثر تبدیل ہوا۔ لفظوں کی کمی پیشی سے پیغام کی ترمیم و تحریف کو بھی قبول کر لیا
ربا میرے حال دا محرم توں
اندر توں ہیں باہر توں ہیں روم روم وچ توں
توںہین تانا تون ہیں بانا سب کچھ میرا توں
کہے حسین فقیر نمانا میں ناہیں سمجھ توں
لاہور کا میلہ چراغاںہر سال پنجابی کے
صوفی شاعر شاہ حسین کے عرس کے موقع پر منعقد ہو تا چلا آیا ہے
۔لاہور کو زندہ دلان کا شہر کہنے کی ایک وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ایک دور تھا جب
یہاں ’’ ست دن تے اٹھ میلے ‘‘ ہوتے تھے ،یعنی سات دنوں میں اس
شہر لاہور میں آٹھ میلے لگتے تھے ،کیونکہ اس میں مبالغہ آرائی بھی نہیں
کیونکہ قیام پاکستان سے قبل کبھی بسنت اور کبھی جوڑ ،
بیساکھی کے میلوں کے ساتھ بزرگان دین حضرت داتاگنج بخش ۔ میر ،موج
دریا ، بابا شاہ جمال اور مادھولال حسین کے ہر سال عرس کے موقع
پر میلون کااہتمام ہوتا تھا جسمیںدور دراز علاقوں سے لوگشریک
ہوتے تھے حضر ت شاہ حسین کا عرس ہر
سال موسم بہار کے دنوں میںیعنی مارچ میں دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،
اس لئے اسے ایک ثقافتی تہوار بھی کہا جاتا تھا، صوفی حضرت
مادھو لال حسین کے عرس کے موقع پر ہر طرف میلے کا سماں ہو تا تھا جس
موقع پر پرجو گیت گائے جاتے ، ان میں ’’بولیاں ‘‘ خصوصی حیثیت کی حامل ہوتی تھیں
،وقت کے ساتھ ساتھ عرس تو ہر سال ہوتا چلاآیا ہے اور اس موقع پر کل کی طرح آج
بھی عقیدت مند دور دراز سے یہاں آتے ہیں ۔اس سال کورونا کی حالیہ تیسری لہر
کے پیش نظر، عرس تقریبات اور میلہ چراغاں کو موقوف رکھا گیا ، البتہ جامع مسجد
دربار حضرت شاہ حسین میں علما کرام و مشائخ اکھٹے ہوئے اور حضرت شاہ حسین کو
خراج عقیدت پیش کیا ۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل مذہبی امور اوقاف پنجاب ڈاکٹر
طاہر رضا بخاری نے عظیم صوفی بزرگ شاعر شاہ حسین المعروف مادھولال
حسین کے عرس کے موقع پر کہا کہ شاہ حسین برصغیر کی تاریخ تصوف کا ایک
درخشاں باب ہیں آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے شرف آدمیت اورتکریم
انسانیت کی روایت کو اجاگر کیا۔ آپ نے اپنے کردار اور احوال وافکار کے ذریعے مجبوراور
پسماندہ طبقات کے مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان کے دکھوں کے مداوے کی
طرف، معاشرے کو متوجہ کیا۔ حضرت شاہ حسین نے اپنی تعلیمات کے ذریعے
دنیا کو بتایا کہ جسم فانی او رروح ازلی اور ابدی حقیقت ہے۔روح کے تقاضوں کو نظر
انداز کرکے محض جسمانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرداں رہنا دانشمندی نہیں،اصلی عظمت
ورفعت’’روحانی اور باطنی ‘‘ہے۔جسے حاصل کرنے کا واحد راست’’اللہ کی رضا ‘‘میں ڈھل جانا
ہے۔اس موقع پر ایصال ثواب اور خصوصی دعا کا بھی اہتمام ہوا جبکہ زونل ایڈمنسٹریٹر
اوقاف لاہور گوہر مصطفی، مولانا احمد رضا سیالوی، آصف اعجازنے شرکت
کی ۔ شاہ حسین کی زندگی مختصر نظر ڈالی جائے تو آپ
945ھ بمطابق 1539ء میں ٹکسالی دروازے لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد
گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جو کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے ا باو اجداد
تعلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، آپ کاخاندانی نام حسین تھا۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات
ہے۔ والد شیخ عثمان بافندگی یعنی کپڑے بننے کے پیشے سے منسلک تھے۔ آپ کی
پیدائش کے وقت آپ کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے باہر راوی کے کنارے آباد
ایک محلے میں رہائش پزیر تھے جو تل بگھ کہلاتا تھا۔شاہ حسین تصوف سے تعلق رکھنے
والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اْس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ
اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے
موجد ہیں۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اْن کی شاعری میں عشق حقیقی کا
اظہار ہوتا ہے۔ شاہ حسین نے ادب کے میدان میں اپنا ممتاز مقام پیدا کر لیا۔
پنجابی کو ایسے مصرعے، تشبیہات اور موضوعات دیے کہ ان کے بعد آنے والوں نے یا تو
ان کو اپنی طرف منسوب کر لیا .
’’مائے نی میں کہنوں
آکھاں درد وچھوڑے دا حال ‘‘
Post a Comment