Facebook SDK

 Hifazat e Quran | حفاظت قرآن اور اسکی ذمہ داری | AIOU Assignments 2022 | Solved Assignments

Hifazat-e-Quran | حفاظت قرآن کی ذمہ داری


حفاظت قرآن کی ذمہ داری

آسمانی کتابوں میں سے کسی کے بارے میں یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالی نے اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہو ۔ قرآن سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں ان کی زبانیں تک مردہ ہو چکی ہیں اور خطہ ارضی پر کہیں بھی بولی نہیں جاتیں ۔ اللہ تعالی نے نہ صرف قرآن کریم کو دستر وزمانہ سے محفوظ رکھا بلکہ اس کی زبان کو بھی زندہ و پائندہ بنادیا ۔ آج دنیا میں کروڑوں انسان عربی بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ قرآن کریم میں فرمایا : إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له تحفظون : ( انجر ۔۹ ) ’ ’ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ ‘ ‘ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اپنی حفاظت میں انسانی مساعی سے بے نیاز ہے ، اس کی حفاظت کی ذمہ داری خالق ارض وسماء نے خود لی

حفاظتی تدابیر 

اگر چه حفاظت قرآن کی ذمہ داری خوداس کے نازل کرنے والے نے لی تھی ، تا ہم اس نے اس کی حفاظت کے لئے مندرجہ ذیل ظاہری تدابیر بھی اختیار کی تھیں ۔

 ا ۔ طریق نزول 

قرآن کریم کا طریق نزول خود اس کی حفاظت کا ضامن تھا ۔ جبریل امین قرآن کو حضور سی پی کے سینہ میں بحفاظت اتار دیتے ۔ اس کے بعد نبی ساپر صحابہ کو بلا کر قرآن کا یہ حصہ سنائے اور صحابہ اسے ازبر کر لیتے ۔ بہت سے صحابہ کو پورا قرآن یادتھا ۔ کئی صحابہ نازل آیات کو لکھنے کا فوری اہتمام کرتے تھے ۔ قرآن کریم میں فرمایا : وإنه لتنزيل رب العلمين * نزل به الروح الأمين * ( سورة الشعراء - ۱۹۲ ، ۱۹۳ ) ’ ’ اس قرآن کو روح نے جہانوں کے مالک کی طرف سے مجھ پر نازل کیا ہے ۔ ‘ ‘ بل هوايت بينت في صدور الذين أوتوا العلم ( عنکبوت ) یہ واضح آیات ان لوگوں کے سینوں میں ہیں جن کو علم دیا گیا ہے ۔ “ جب جبریل اپنا کام ختم کرتے تو حضور ﷺ کا کام شروع ہوجاتا اور مسلمانوں کے سینوں تک پہنچا کر ختم ہوتا ۔ یہ قرآن کریم آسانی لوح محفوظ سے اتر کر حضور کے قلب مبارک کی لوح محفوظ میں آتا پھر آپ اسے نیک نہاد صحابہ کے پاکیزہ سینوں میں منتقل فرمادیتے ۔ایمان کی مضبوط تار نے صحابہ کے دلوں کو آنحضورﷺ کے قلب مبارک سے جوڑ دیا تھا ۔ وحی کی روشنی جو نہی آپ ﷺ کے دل میں آتی زبان مبارک کی ہلکی سی جنبش سے صحابہ کے دل نو رقر آن سے جگمگا اٹھتے ۔ حضور ﷺ جب قرآن سناتے تو تشنہ کا مان وحی اس سے اپنی روحانی پیاس بجھاتے ۔

 ۲۔ حفظ وضبط 

قرآن نبی کریم سالم حفاظت قرآن کا خاطر خواہ اہتمام فرماتے تھے ۔ جب کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ کوفورا اس کے لکھوانے کی فکر دامن گیر ہوتی ۔ اس مقصد کے لئے آپ نے بہت سے کا تب مقرر کر رکھے تھے ۔ علامہ حلبی نے سیرت العراقی کے حوالہ سے ان کی تعداد ۴۲ لکھی ہے ۔ آپ کے چاروں خلفاء بھی یہ فریضہ انجام دیتے تھے ۔ پھر آپ اس تحریر کو مسلمانوں میں پھیلاتے وہ اس سے اپنا نسخہ تیار کرتے اور اسے اپنے پاس محفوظ کر لیتے مخصوص کاتبین وحی کے علاوہ بہت سے صحابہ نے اپنے طور پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے عہد نبوی میں سارا قر آن جمع کیا۔اور رات بھر پڑھتارہتا تھا ۔ نبی کریم ﷺ نے ایک ماہ میں پورا قرآن ختم کر نے کا حکم دیا تھا ۔ ( مسند احمد ونسائی ) خلاصہ کلام یہ کہ آنحضورﷺ کی مساعی سے عہد رسالت میں پورا قرآن لکھا جا چکا تھا ۔ اگر چہ اس کے اجزاء متفرق تھے اور ان کی شیرازہ بندی کی نوبت نہیں آئی تھی۔خلافت صدیقی میں جب عرب بھر میں کفر والحاد کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ دوسری جانب مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا اس کے خلاف جنگ آزمائی میں بارہ سو کے قریب صحابہ شہید ہوئے جن میں سات سوقر آن خواں اور ستر کے قریب قاری تھے ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حفاظ قرآن کی شہادت کا یہ عالم دیکھا تو حضرت صدیق اکبر کومشورہ دیا کہ قرآن کو ایک مرتب کتاب کی صورت میں جمع کر لیا جاۓ حضرت ابوبکر نے پہلے انکار کیا  مگر فاروق اعظم کے اصرار سے اس پر رضا مند ہو گئے ۔حضرت ابوبکر نے چند صحابہ کو یہ خدمت سپرد کی ۔ جن کی کوشش سے قرآن کریم کے اجزاء کو کتابی صورت میں یکجا کیا گیا قرآن کریم کا مینسخہ ترتیب وتہذیب کے اعتبار بلکہ ہر لحاظ سے وہی قرآن تھا جو آنحضور پر نازل ہوا تھا ۔ یہ نسخہ پہلے حضرت ابوبکر کی تحویل میں رہا ۔ پھر ان کے جانشین حضرت عمر کی حفاظت میں آیا ان کے بعد یہ نسخہ پہلے انکی صاحبزادی حضرت حفصہ کے سپردکر دیا گیا۔امام ابن حزم کا قول ہے کہ فاروق اعظم کی وفات کے وقت دیار مصر و شام اور عراق و یمن میں قرآن مجید کے ایک لاکھ نسخے موجود تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہو اور نئی نئی قو میں حلقہ بگوش اسلام ہوئیں تو مختلف قبائل کے لوگ اپنے اپنے لب ولہجہ کے مطابق پڑھنے لگے جس سے تلاوت قرآن میں اختلاف رونما ہوا ۔ حضرت عثمان نے صحابہ کو اس کی نقلیں کر نے کا حکم دیا ۔ چنانچہ قر یشی لہجہ کے مطابق قرآن حکیم کی تقلیں کی گئیں اور ہر صوبہ کے مرکز کو ایک نسخہ بھیج دیا گیا ۔ حضرت عثمان نے ایک نسخہ اپنے پاس مدینہ میں رکھ لیا ، اسے’’لمصحف الامام ‘ ‘ کہتے ہیں ۔ آج قرآن کریم کانسخہ اس کائنات ارضی کے چپہ چپہ پر پایا جا تا ہے ۔ یہ صحف عثمانی کی نقل ہے جس میں آج تک زیروز بر پر بھی فرق نہیں آیا اور مصحف عثمانی ہو بہواس قرآن سے نقل کیا گیا تھا جو آنحضورسی پی نے امت کو دیا ۔

 ۳۔ تلاوت قرآن

 کتاب وسنت میں تلاوت قرآن کی جو تاکید کی گئی ہے اور اس پر جزاء وثواب کا جو وعدہ دیا گیا ہے ۔ حفاظت قرآن کے لئے اکسیر کا حکم رکھتا ہے ، اس کا نتیجہ ہے کہ ہر مسلمان تلاوت قرآن کا شیدائی نظر آتا ہے اور مشاغل حیات میں سے تلاوت کے لئے تھوڑا بہت وقت ضرور نکال لیتا ہے ۔ صبح کا وقت تلاوت قرآن کے لئے خصوصی طور پر زیادہ با برکت ہے ۔ قرآن میں فرمایا : إن قران الفجر كان مشهودا ۔ صبح کی تلاوت قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ نماز فجر کے بعد ہر گھر سے تلاوت قرآن کے خوش آئند نفے فضا میں بلند ہوکر پورے ماحول کو تقدس و روحانیت سے بھر دیتے ہیں ۔ قرآن میں خود حضور کو تلاوت کا حکم دیا گیا ہے : اتل ما أوحي إليك من الكتبـ ( امنکبوت ۔ ۴۵ ) ’ ’ کتاب سے جو آپ کو طرف وحی کیا گیا ہے اس کی تلاوت کیجئے ۔ ‘ ‘ نبی اکرم کی جبریل امین کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے ۔ یہ دور خصوصی طور پر ماہ رمضان میں ہوا کرتا تھا ۔ نزول قرآن کا آغاز ماہ رمضان میں ہوا تھا ۔ اس لئے رمضان وقرآن کو ایک دوسرے سے گہری مناسبت ہے ، یہی وجہ ہے کہ مسلمان نماز تر واقع میں بڑے ذوق وشوق سے قرآن سنتے ہیں ۔ قرآن کریم کا سننا پڑھنے سے بھی زیادہ ضروری اور موجب اجر وثواب ہے ۔ قرآن کریم میں فرمایا : إذا قرئ القرآن فاستمعواله وأنصتوا ( الاعراف ۔ ۲۰۴ ) ’ ’ جب قرآن پڑھا جاۓ تو اسے توجہ سے سنو اور زبان سے خاموش رہو ۔ ‘ ‘ نبی کریم سی پلم نے قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کو معیارفضیلت قرار دیتے ہوۓ فرمایا : خيركم من تعلم القرآن و علمذ ۔ ( بخاری ومسلم ) ’ ’ تم سب سے بہتر وہ ہے جوقر آن پڑھے اور پڑھاۓ ‘ ‘ مندرجہ ذیل احادیث سے تلاوت قرآن کی اہمیت واضح ہوتی ہے ۔ _r آپ ﷺ نے فرمایا : دوخص رشک کے قابل ہیں ، ایک وہ جس کو اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا اور وہ دن رات اس کی تلاوت کرتا ہے ۔ ( بخاری ومسلم ) حضوری یا مسجد میں تشریف لاۓ تو دیکھا کہ کچھ لوگ محو عبادت ہیں اور کچھ قرآن کریم کے پڑھنے پڑھانے میں مشغول ہیں ، آپ قرآن پڑھنے والوں کے ساتھ بیٹھ گئے اور فرمایا کام وہ بھی اچھا کرتے ہیں لیکن میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ ( بخاری ومسلم ) قرآن کا ہر حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں ۔ بناء بر میں’’الہ ‘ ‘ پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گی ۔ تلاوت قرآن کی میترغیب و تشویق حفاظت قرآن میں بڑی حد تک مد و معاون ثابت ہوئی ۔ مسلمان ہمہ تن قرآن پڑھنے پڑھانے اور حفظ کرنے میں لگ گئے ۔ قرآن کے سواکسی دوسری کتاب کو یہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی ۔ اس سے واضح ہوا کہ تلاوت قرآن کا ذوق وشوق بھی قرآن کی حفاظتی تدابیر میں سے ایک ہے ۔

 ۴۔ حفظ قرآن

 قرآن مجید دنیا کی واحد کتاب ہے جس کو مسلمان سینہ میں جگہ دیتے اور اس کو حرز جان بنا کر رکھتے ہیں ۔ قرآن کریم کے سوا کا ئنات ارضی کی کسی کتاب کو زبانی یا نہیں کیا جا تا ۔ آج دنیا میں لاکھوں حفاظ قرآن اور قاری موجود ہیں جن کی زندگی کا واحد سرما می صرف قرآن کریم ہے اور انہوں نے اس کے حفظ وضبط اور تلاوت کے لئے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے ۔ دنیا کی کسی قوم نے اپنی مذہبی کتاب کے تحفظ و بقاء کے لئے میداہتمام نہیں کیا ۔ یہ حفاظت قرآن کی ایسی دلیل ہے کہ جس کی نظیر کہیں موجود نہیں ۔مندرجہ ذیل احادیث سے حفظ قرآن کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے ۔ آپ کی پیﷺ نے فرمایا جس کھال میں قرآن ہوگا وہ آگ میں نہیں جاۓ گا ۔ ( داری ) آپ ﷺﷺ نے فرمایا روز قیامت حافظ قرآن کو کم ہوگا کہ قرآن پڑھتاجا اور جنت کے مدارج طے کرتا جا ۔ جہاں تیرا قرآن ختم ہوگا وہی تیرا مقام ہے ۔ جس صحابی کو زیادہ قرآن یاد ہوتا تھا ، آپ سر پیم ای کوقبیلہ کا امام اور سردار مقرر کرتے تھے ۔ چنانچہ اسی بناء پر حضورسی پی نے ایک قبیلے کے آٹھ سالہ لڑکے کو امام بنایا ۔ ( مشکوۃ ) ۔ ۔ آپ ﷺﷺ نے فرمایا ۔ جوقر آن کو یادکر کے بھلا دے وہ قیامت کوکوڑھی بن کر اٹھے گا ۔ ( بخاری ) آپ کریم نے فرمایا ۔ میں نے اپنی امت کا کوئی گناہ اس سے بڑا نہیں دیکھا کہ کسی نے ایک آیت یادکر کے بھلا دی ہو ۔ ( صحاح ستہ )

 ۵۔ قرآت صلوۃ

نماز بدنی عبادات میں ایک اہم مقام رکھتی ہے ۔ یہ دین کا ستون ہے جس کے منہدم ہونے سے دین کی عمارت گر جاتی ہے ۔ تلاوت قرآن نماز کا جزواعظم ہے جس کے بغیر نمازکمل نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان اپنی استطاعت کی حد تک نماز میں پڑھنے کے لئے قرآن یادکرتا ہے ۔ فرائض سے زیادہ نوافل میں قرآن پڑھا جا تا ہے ۔ روۓ زمین پر وہ کون سی مسجد ہے جس میں ماہ رمضان کے دوران تراویح میں قرآن کریم ختم نہیں کیا جا تا ۔ بناء بر یں نماز میں قرآن خوانی اس امر کی موجب ہوئی کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ قرآن یا دکر میں تا کہ طویل قرأت کے ساتھ نماز ادا کر یں اور اس میں طمانیت واعتدال کی روح پیدا کر میں ۔ بزرگان سلف سے نماز میں قرآن پڑھنے سے متعلق عجیب وغریب روایات منقول ہیں جن سے ان کے والہانہ ذوق وشوق کا اندازہ ہوتا ہے ۔ مثال حضرت عثمان اور تمیم داری ایک ایک رکعت میں قرآن ختم کیا کرتے تھے ۔ امام ابوحنیفہ سے بھی ایک رکعت میں قرآن ختم کر نا منقول ہے ۔ ایک غزوہ میں نبی کریم کی تیار نے عمار بن یاسراور عبادہ بن بشیر کوکم دیا کہ رات کو باری باری پہرہ دیں ۔ حضرت عبادہ کی باری پہلےتھی ، وہ نماز کے لئے کھڑے ہو گئے ۔ فیمن نے آپ کو کھڑا دیکھ کر تین تیر مارے ۔ آپ جسم سے تیر نکالتے رہے مگر نماز کوترک نہ کیا ۔ جب نمازختم کی اور ساتھی کو جگایا تو ڈیمن بھاگ گیا تھا ۔ ساتھی نے آپ کو بولا دیکھ کر وجہ پوچھی تو حضرت عبادہ نے جواب دیا ۔ میں نے سورۂ کہف شروع کر رکھی تھی اسے نا تمام چھوڑنے کو جی نہ چاہتا تھا ۔ حکایات صحابہ ) مندرجہ صدر بیان سے واضح ہوتا ہے کہ نماز میں قرأت قرآن بھی کلام ربانی کی حفاظتی تدابیر میں سے ایک مؤثر تد بیرتھی جس سے قرآن کے تحفظ و اشاعت میں بڑی مددلی ۔

 ۲۔ قرآن کریم کی اشاعت اور اس کے قدیم نسخے

 قرآن مجید کا وہ نسخہ جس کی تلاوت کرتے ہوئے حضرت عثمان کو شہید کیا گیا تھا ۔ روس میں موجود ہے ، یہ نسخہ امیر تیمور کے زمانہ میں ابوبکر الشاشی کی جانب سے حضرت شیخ عبداللہ کے مرقد پر رکھا گیا ۔ جہاں سے دوروسیوں کے ہاتھ آیا ۔ ا ۔ ۳ ۔ ۔ روایات میں منقول ہے کہ قرآن مجید کی ایک نقل حضرت علی اور حضرت سالم موئی ابی حذیفہ نے بھی تیار کی تھی ۔ بیان کیا جا تا ہے کہ قرآن مجید کے چند اوراق حضرت علی کے تحریر کردہ لا ہور کی شاہی مسجد میں موجود ہیں ۔ ۱۹۳۰ ء ماہ نومبر میں ایران کے محکمہ آثارقدیمہ کو حضرت عثمان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک نسخہ کردستان کی ایک مسجد میں سے برآمد ہوا تھا ۔ ۔ قرآن مجید کا ایک نسخہ امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے دست مبارک سے لکھا تھا ، یہ ہرن کی کھال پر لکھا ہوا ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لکھے ہوۓ قرآن مجید کے چندا دراق جو خط کوفی میں لکھے گئے تھے ۔ < -15 ۔ امیر تیمور کو بابر ید یلدرم کے کتب خانے سے ملے تھے جو تیموری سلاطین کی حفاظت میں رہے ۔ ۱۸۵۷ ء میں میں اوراق بہادر شاہ ظفر آخری تیموری بادشاہ سے لے کر انگریزی حکومت نے برطانیہ بجوا دیئے لیکن چند اوراق جن میں ایک پرشاہ جہاں کی مہر ہے دہلی میں موجود ہیں ۔ ۔ خلفاۓ بنی امیہ نے بھی قرآن کریم کی اشاعت میں بڑا حصہ لیا ۔ خلیفہ عبدالملک نے اپنے عہد رسالت میں قرآن کریم کے نسخے شمالی افریقہ میں پہنچاۓ ۔ یہاں سے یہ نسخے سوڈان اور حبشہ میں پہنچے ۔ جب ولید کا دور آیا تو قرآن مجید یورپ میں پہنچ چکا تھا ۔ فرانس میں قرآن مجید گیارہو میں صد میں عیسوی سے پہلے پہنچا تھا ۔ بارہو میں صدی عیسوی کی ابتداء میں قرآن کا لاطینی ترجمہ ہو چکا تھا ۔ چودھو میں صدی میں قرآن کریم اٹلی پہنچا اور پندرھویں صدی میں جرمنی والے اس سے روشناس ہوۓ ۔ مشرقی یورپ میں قرآن ترکوں کے ذریعہ پہنچا ۔ چینی ترکستان میں قرآن ۵۰ ھ میں سلطان بغراخان کے عہد میں پہنچا ۔ بلغاریہ میں ۳۱۰ ھ میں قرآن پہنچ چکا تھا ۔ قرآن مجید مع تفسیر چارجلدوں میں روس سے ے ے ے اور میں شائع کیا گیا ۔ اس کی اشاعت کا اہتمام روس کی ملکہ کیتھرائن دوم نے کیا تھا ۔ قرآن کریم کے مذکورہ صدر قدیم نسخے اس حقیقت کے زندہ گواہ ہیں کہ موجودہ قرآن مجید بعینہ وہی ہے جو عہد رسالت اور قرون اولی میں تھا ۔ نیز یہ کتاب ربانی دست بردزمانہ سے بالکل محفوظ ومصؤن رہی ہے اور گردش ایام نے اس پر کچھ اثر نہیں ڈالا ۔ ے ۔ حفاظت قرآن کانسخہ اکسیر قرآن کریم کے تحفظ و بقا کے لئے حفاظت خداوندی کے علاوہ جو ظاہری وسائل و ذرائع اختیار کئے گئے ، ان میں مؤثرین ذریعہ اہل اسلام کا وہ ذوق شوق اور قرآن کریم کے ساتھ انتہائی شغف ہے جو تاریخ کے ہر دور میں موجودرہا ۔اسی حد پہ محبت والفت کا تقاضا تھا کہ مسلمان تلاوت قرآن کریم کے شیدائی رہے اور گونا گوں مشاغل حیات میں گھر جانے کے باوجوداس کے پڑھنے پڑھانے سے بھی محروم ندر ہے ۔ بدقسمتی سے تہذیب ، جد ید اورغلمانہ طرزفکر نے جہاں دوسری اسلامی اقدار کو پامال کر دیا ۔ وہاں تلاوت قرآن کا جذبہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا ۔اب قرآن کریم کو یا تو ریشمی غلافوں میں لپیٹ کر زمینت طاق بنادیا گیا اور یا عدالتوں میں حلف اٹھانے کے لئے اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ اگر کبھی اس کی تلاوت کا خیال دامن گیر ہوتا بھی ہے تو کسی قریب الموت شخص کو سورہ یسین سنانے کے لئے ۔ حالانکہ قرآن ایک زندہ کتاب ہے اور مردوں سے زیادہ اس کی ضرورت ان لوگوں کو ہے جو بقید حیات ہیں ۔ اگر مسلمان قرآن کو ایک کتاب ناطق قرار دیتے جو ان کے انفرادی واجتماعی معاملات میں فیصلہ کن احکام صادر کرتی ہے تو اس کوگل دستہ طاق نسیان بنانے کی نوبت کبھی نہ آتی ۔

 


Post a Comment

Previous Post Next Post