Facebook SDK

 

اردو ادب میں طنزومزاح کی روایت


اردو ادب میں طنزومزاح کی روایت اور طنز اور مزاح میں فرق

طنزومزاح کی روایت

قادر مطلق نے اپنی مخلوق میں سے ہر جاندار کو زیادہ سے زیادہ پانچ حصوں سے نوازا ہے مگر انسان کو تین مزید حسیں چھٹی حس ،حسِ جمال اور حسِ مزاح عطا کرکے اسے تمام جانداروں سے ممیز و مشرف کر دیا ہے ۔اس وقت ہمارا روئے سخن موضوع کے تحت صرف حسِ مزاح کی طرف ہے ۔

ہنسنا ہنسانا انسانی فطرت ہے اور طبعی طور پر یہ صلاحیت کم یا زیادہ ہر شخص میں پائی جاتی ہے ۔جس طرح انسان جب مظاہر فطرت کے خوبصورت نظاروں کو دیکھتا ہے تو سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے اسی طرح وہ اپنے معاشرے کی مضحک پہلوؤں پر اپنے آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا ہے ۔مولانا حالی نے مرزا غالب کو حیوان ظریف لکھا ہے تو محض اس بنا پر کہ مرزا غالب کی فطرت میں بذلہ سنجی،  شوخ چشمی ، طنزومزاح اور لطیفہ گوئی کی حس غیرمعمولی طور پر موجود تھی ان کی کوئی بات بھی لطف و ظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی ۔سرسید احمد خان علامہ اقبال آغا حشر کاشمیری وغیرہ کا بھی یہی حال تھا ان کی تمام زندگی ساغرِ ظرافت سے لبریز رہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کچھ انہی لوگوں پر موقوف نہیں بلکہ شوخی و ظرافت کی حس ہر شخص میں موجود ہوتی ہے اور انسان اپنے گرد و پیش کے حالات کے تقاضوں کے تحت اسے بروئے کار لاتا ہے لیکن چونکہ شاعر یا ادیب اپنے معاشرے کی حساس ترین افراد ہوتے ہیں اس لیے یہ صلاحیت تمام لوگوں کی نسبت ان میں کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔

اردو ادب میں طنزومزاح کی روایت اور طنز اور مزاح میں فرق

طنز اور مزاح میں کیا فرق ہے؟

طنز و مزاح زبان و ادب کے دو رنگ ہیں جو نظم و نثر دونوں میں پائے جاتے ہیں یہ دونوں لفظ کبھی ساتھ ساتھ لے آتے ہیں اور کبھی الگ الگ ۔ان دونوں لفظوں میں معنوی اعتبار سے بھی فرق ہے  ڈاکٹر اشفاق احمد ورک طنز اور مزاح میں فرق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

طنزومزاح بیک وقت دو مختلف چیزیں ہیں اور لازمی ملزوم ہیں ۔انگریزی ادب میں تو یہ دونوں اپنی اپنی خصوصیات مزاج اور تاثیر کے اعتبار سے نمایاں طور پر الگ الگ پہچانی جاتی ہیں جبکہ اردو ادب میں دونوں میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ انہیں جدا کرنا کارِ دشوار ہے ۔طنز فن کی ضرورت ہے جبکہ مزاح طنز کا لازمہ۔ مزاح کا مقصد محض ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے جبکہ طنز کا مقصد سوچنے کی دعوت دینا اور اور اصلاح کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے "

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو طنزومزاح اردو ادب کی مشکل صنف ہے اور اس میں لکھنے والے کو بہت محتاط ہو کر لکھنا پڑتا ہے ۔

اردو ادب میں طنزو مزاح کی روایت

اردو ادب میں طنز و مزاح کی صحت مند اور خوشگوار روایت کا آغاز مرزا غالب سے ہوتا ہے۔ مرزا غالب کے بعد اودھ پنچ اور اودھ اخبار  نے بھی اسے فروغ دیا ۔اس کے بعد کے مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی اور پطرس بخاری شامل ہیں ۔ان لوگوں کو اردو مزاح نگاری میں سند کا درجہ حاصل ہے ۔ان تینوں مزاح نگاروں کے مضامین کے مجموعے بھی بالترتیب مضامینِ فرحت ، مضامینِ رشید اور پطرس کے مضامین کے ناموں سے شائع ہوکر قبولِ عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔

موجودہ دور کے مزاح نگار

دور حاضر میں طنز و مزاح نے بہت ترقی کی ہے اور بے شمار ادیب اس صنف میں مستند حیثیت رکھتے ہیں۔ جن میں ابن انشا ،مشتاق احمد یوسفی ، شفیق الرحمان ، کرنل محمد خان ، ابراہیم جلیس ، سید ضمیر جعفری ،محمد خالد اختر ، عطاء الحق قاسمی اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک شامل ہیں ۔

جب تک انسان زندہ ہے اس کی فطرت بھی زندہ ہے سید ضمیر جعفری نے کیا خوب کہا ہے 

غم نے کب آدمی کو چھوڑا ہے 

خوب ہنس لو کہ وقت تھوڑا ہے 

امید ہے کہ آنے والے دور میں یہ صنف اور بھی مقبول ہو گی کیونکہ لوثِ غرض سے مردہ جذبات کو تازہ کرنے کے لئے انسان کے پاس اس سے زیادہ موثر ذریعہ شاید کوئی اور نہ ہو گا۔ 

 

Post a Comment

Previous Post Next Post