"امراؤ جان ادا "اودھ کے زوال پذیر معاشرے کی تصویر
اُمراؤ جان ادا مرزا محمد ہادی رسوا (1857–1931)
کا ایک اردو ناول
ہے، اس کی پہلی اشاعت 1899ء میں ہوئی۔بعض محققین اسے ارد وکا پہلا ناول بھی قرار
دیتے ہیں۔ اس
ناول کی کہانی فیض آباد سے اغوا شدہ لڑکی امیرن کی ہے، جسے امراؤ جان ادا کے نام
سے لکھنؤ میں ایک طوائف کی زندگی بسر کرنا پڑی۔ ناول میں انیسویں صدی کے لکھنؤ کا
معاشرہ پیش کیا گیا ہے۔
امراؤجان ادا کا فکری جائزہ
فکری طور پر دیکھا جائے تو امراؤ جان ادا بیک وقت سابی
، معاشرتی ، نفسیاتی اور تاریخی ناول ہے ۔ ناول نگار نے اس ناول میں انتہائی فکر
انگیز حالات و واقعات پیش کئے ہیں ۔ یہ ایسے حالات ہیں جن کے اندر ہمیں سابی و
معاشرتی حقائق کے ساتھ ساتھ معاشرے و سماج میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور
جذبات بھی نظر آ رہے ہیں ۔ اس ناول میں جہاں بہت سے ناگفتہ بہ حالات و واقعات پیش
کئے گئے ہیں ۔ و میں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو در پیش آۓ
ان کے دھڑ کتے دل ، سوچیں ، آتی جاتی اور ٹوٹتی سانسیں ، خدشات ، تجر بات اپنے اپنے
احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر انداز میں پیش کر دیے گئے ہیں ۔
یہ
ایک سچا اور حقیقی ناول ہے جو اپنے وقت کے معاشرے کی ایک مکمل تصویر کی حیثیت
رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناول نگار نے کہانی کے انداز میں معاشرے اور ساج کی
عکاسی کرتے ہوۓ
طوائفوں کے کو ٹھے کو مرکز پا کر پڑھنے والوں کو بھی وہیں بٹھا کر پورے لکھنو کے
در و دیوار ، بازار اور گلی کو ۔ ں کو پے دکھائے ہیں ۔ طوائفوں کا یہ بالاخانہ
ایسا مقام ہے جہاں سے ہم پورے معاشرے کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے یہی کہ
بہت سے شریف گھرانوں کی امراؤ جان جیسی بچیاں اغوا کر کے اپنے دام کھر نے کرنے کی
غرض سے گناہ کے دلدل میں دھکیل دی جاتی ہیں ۔ جہاں وہ تمام عمر چھٹکارا حاصل نہیں
کر سکتیں ۔
امراء
جان او کے علاو و رام و ئی آبادی جان اور خورشید جان در حقیقت ایسی بے شمار لڑکیوں
کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ جنہیں اغوا کر کے اونے پونے داموں طوائفوں کے ہاتھ بیچ دیا
جاتا ہے ۔ اس سے ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت بردہ فروشی کا ایک
باقاعدہ نظام تھا ۔ معاشرتی و سماجی حقیقت نگاری کا قرض ادا کر تے ہوئے ناول نگار
نے یہ حقیقت ثابت کر دکھائی ہے کہ اس وقت کی لکھنوی معاشرت میں طوائف کو بنیادی
حیثیت حاصل تھی ۔ طوائف مالدار لوگوں کی ایک لازمی ضرورت تھی ۔ اسے سوسائٹی کا
اٹوٹ انگ سمجھا جاتا تھا ۔ طوائف کے ہاں آنا جانا اور اسے اپنی داشتہ بنا کر رکھنا
فخر اور نمود نمائش کا درجہ رکھتا تھا ۔
اس
زمانے کے لکھنوی سماج میں طوائف کا وجود ایک مقبول فیشن کی حیثیت اختیار کر چکا
تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کی فضاء میں ان گنت نوابین اور خوانین طوائفوں کے
درباروں میں سجدہ ریزی کرتے دکھاۓ
دے رہے ہیں ۔ اس میں اٹھارہ انیس سال کے نوجوان نوابوں سے لے کر ستر برس کے نواب جعفر
علی خان جیسے کمر خمیدہ اور سفید ریش نواب بھی نظر آ تے ہیں ۔ نوجوان نوابوں میں
نواب چھین ، راشد علی راشد اور نواب سلطان پیش پیش ہیں ۔ نواب سلطان ایسے لوگوں کی
نمائندگی کرتے دکھائی دیتے ہیں جو منافق قسم کے سفید پوش ہوتے ہیں اور دنیا کی
نظروں سے چھپ کر گناہ کر نا پسند کرتے ہیں ۔ تاکہ شرافت کا لبادہ بھی نہ اترے اور
نفسانی خواہشات کی تکمیل بھی ہو جائے ۔
ناول
نگار نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پورا معاشرہ ایک طرح سے طوائف کا بالا خانہ بنا
ہوا ہے ۔ طوائفوں نے مختلف لوگوں کو اپنے بال میں پھنسانے کی خاطر ایک مخصوص منشور
بنارکھا ہے ۔ وہ منشور " مسی " کی رسم سے شروع ہوتا ہے ۔ جو صرف اور صرف
کوئی نواب ہی سر انجام دے سکتا ہے ۔ اور جس کی منہ مانگی قیمت وصول کی جاتی ہے ۔
اور اس طرح معصوم بچیوں کی عزت و آبرو کی قیمت خانم جیسی گھاک طوائف کے صندوق میں
پہنچ جاتی ہے ۔ ناول سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ لکھنو کی زوال پزیر معاشرت میں
طوائفوں کا دور دورہ تھا ۔ نوابوں کے محلوں اور عملداری پر طوائفوں کا سکہ چلتا
تھا ۔
نوابین
سیر و سیاحت ، پکار اور کھیل تماشوں کے موقعوں پر طوائفوں کی فوج ظفر موج اپنے
ساتھ رکھتے تھے ۔ بڑی بری ڈیرہ دار طوائفوں کا ساز و سامان نوابوں کے خرچے پر ایک
جگہ سے دوسری جگہ پہنچا یا جاتا تھا ۔ نوابزادے بلکہ حرامزادے طوائفوں کے نخرے
اٹھانے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے ۔ طوائف اس وقت کی معاشرت میں اس قدر سرائت کر
چکی تھی کہ طوائفوں کے کو ٹھوں اور بالاخانوں کو تہذیب کا مرکز سمجھا جانے لگا ۔
شہر فار اپنی اولاد کو گناہ کی ان بھٹیوں میں آداب سکھانے بھیجا کرتے تھے ۔ تا کہ
وہ کندن بن کر نکلیں ، لیکن صاف ظاہر ہے کہ وہ کندن کی بجاۓ
گندے بن کر لکھتے تھے ۔
امراو جان ادا کا مرکزی خیال
مجموعی
طور پر دیکھا جائے تو فکر می لحالا سے ناول امراؤ جان ادا لکھنوی معاشرت کے زوال
کی داستان ہے لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو اس ناول میں ہمیں
الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اپنی معاشرت اور سماج کی زوال پذیری بھی دکھائی دینے
لگتی ہے ۔ عظیم ادب وہی ہو تا ہے جو نہ صرف اپنے عہد بلکہ آنے والے ادوار کی بھی
ترجمانی کرتا ہے ۔ کے آج ہمارے ہاں بردہ فروشی کا گھنائونا کار و بار نہیں ؟ کیا
آج ہمارے ہاں ہیرامنڈ یاں ، شاہی محلوں ، نائٹ کلبوں ، بیوٹی پاروں اور فلمی دنیا
کی صورت میں طوائفوں کے بالاخانے موجود نہیں ؟ رسوا کے عہد کی طوائف اور ہمارے عہد
کی ماڈل گرل اور اداکار میں کیا فرق ہے کوئی فرق نہیں چنانچہ
جب
کوئی دیکھوں اداکارہ یقیں ہوتا ہے
حسن
سو بار لئے پھر بھی حسیں ہو تا ہے
جس
طرح لکھنو میں گناہ کی دلدل میں دھکیل دی جانے والی لڑکیاں باہر نہیں نکل سکتی
تھیں تو آج بھی جو معصوم بچول بازاروں میں بک جاتے ہیں وہ لوٹ کر گزاروں میں نہیں
جاسکتے ۔
بک
گئے حریف جو سب شہر کے بازاروں میں
پھول
پھر آ نہ سکے لوٹ کے گزاروں میں
لیکن
رسوا نے اصلاحی انداز میں یہ تاثر دیا ہے کہ گناہ کی زندگی ایک لعنت ہے ہر عورت کو
چاہیے کہ وواز دواجی زندگی اختیار کرتے ہوئے گھر کی چار دیواری کے اندر عصمت اور
پاکیزی کا تقدس بر قرار رکھے ۔ یہی سب سے بڑی دولت ہے ۔ سکوں کی جھنکار جوانی تک
ہے ۔ اس کے بعد دین و دنیا کی رسوائی ہے اور پچھتاوا ہے ۔ پشیمانی ہے ، نفسیاتی
توڑ پھوڑ ہے ۔ رسوا نے اسلامی پیغام بڑے دلد و زانداز سے دیا ہے ۔ مگر افسوس اس کا
کیا کیا جائے کہ آج بھی صورت حال کچھ ایسی ہے کہ
شور
ہوتا رہا مے خانوں میں
حسن التمار ہا ایوانوں میں
رات ڈھل جانے کو تھی جب فقری
سسکیاں مل گئیں آذانوں میں
Post a Comment