Urdu adab | Urdu Adab History | Urdu drama history | Radio Drama | AIOU Assignments | Solved Assignments
ریڈیو ڈرامے کی روایت | ریڈیو اور ٹی وی ڈرامے میں مکالمہ نگاری کا فرق
اردو میں ریڈیو ڈرامے کی روایت
ریڈیو ڈراما جسے ریڈیو پلے،ریڈیائی ڈراما، نشری ڈراما، حتی کہ
اسے یک بابی اور ایک ایکٹ ڈراماکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ان سب کا مطلب صرف یہ
کہ وہ ڈراما جو ریڈیو کے ذریعے لوگوں کے گوش گزار کیا جاتا ہے۔ رفعت سروش ریڈیو
ڈراما سے متعلق اپنے مضمون ’’ریڈیو ڈراما نگاری کا فن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ریڈیائی ڈرامہ اپنی الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیج کے
ڈرامے سے بالکل مختلف فنی اعتبار سےدونوں کے میدان الگ الگ ہیں ریڈیو آواز کی دنیا
ہے۔ آواز صرف انسانوں کی آواز۔سازوں کی آواز۔ موسم کی آواز۔ پانی کی آواز۔ ہوا کی
آواز۔بجلی کی آواز۔ بھیڑبھڑ کی آواز۔ خاموشی اور سنّاٹے کی آواز۔ آواز صرف آواز۔
آوازوں کے اتار چڑھاؤ اورپیچ و خم سے ہی ریڈیائی ڈرامہ مرتب کیا جاتا ہے۔
‘‘ ۱
ریڈیوڈراما کی شروعات کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ۱۹۲۷ء میں جب انڈین براڈ
کاسٹنگ کمپنی کا قیام ہوا،اسی کے بعد سے ریڈیوکے ذریعے ڈرامے نشر ہونا شروع ہوئے۔
ڈاکٹر محمد شکیل اختر لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں انڈین براڈ کاسٹنگ کمپنی کے قیام سے با
قاعدہ ریڈیو ڈرامے کی نشریات کا آغازہوا۔ ۱۰ جنوری ۱۹۲۸ء سے پابندی سے ریڈیو
ڈراما نشر کیا جارہا ہے۔ اس دور میں ڈرامے لگ بھگ دو تین گھنٹے کے ہوتے تھے، جس
میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وقفہ ہوتا تھا۔ یہ ڈرامے اسٹیج کی طرح مقبول تھے۔ اس
میں موسیقی زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ بمبئی میں تھیٹر کی روایت کافی مستحکم تھی
اورزبان کا مسئلہ تھا، اس لیے جولائی ۱۹۳۰ء تک ڈرامے پر کوئی خاص
توجہ نہیں دی گئی، لیکن آہستہ آہستہ ریڈیو ڈراما عوام میں مقبول ہونے لگا اور اس
کی مانگ بھی بڑھتی گئی۔ ۱۹۳۴ء میں بمبئی سے ۷ گجراتی ڈرامے، ایک مراٹھی
ڈراما اور سات ہندوستانی زبان میں ڈرامے نشر کیے گئے، ۱۹۳۸ء میں یہ تعداد بڑھ کراور
زیادہ ہوگئی۔‘‘ ۲
بہرحال اردو ریڈیو ڈرامے کی شروعات دہلی میں ریڈیوکے
قیام کے ساتھ ہوا۔ تحقیق کے مطابق اردو کا پہلاریڈیو ڈراما ’’من توش‘‘ کو مانا
جاتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اختر لکھتے ہیں:
آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی کے میوزیم میں سب سے قدیم ریڈیو
ڈرامہ’’ منتوش‘‘ کا مسودہ نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جس پر تاریخ نشر ۳ جنوری ۱۹۳۶ء درج ہے۔ اس ڈرامہ کو
کیشرو چندر چٹر جی نے لکھا تھا اور حکیم شجاع الدین نے ریڈیو کا آہنگ بخشا تھا۔ اس
کی اسکرپٹ اردو زبان میں ہے۔‘‘ ۳
یہاں ایک بات کھٹکتی ہے وہ یہ کہ شکیل اختر نے ’’من
توش‘‘ کے مصنف کا نام ’’کیشرو چندر چٹر جی ‘‘ لکھا ہے۔ جبکہ زبیر شاداب اپنی کتاب
’’ریڈیو نشریات‘‘ میں مصنف کے نام میں چھیرو داس چٹرجی کا ذکر کیا ہے۔آخر نام میں
اختلاف کیوں؟ اندازہ تو یہ ہوتا ہے کہ دونوں نام ایک ہی شخص کے ہیں۔مگر سوال یہ
اٹھتا ہے کہ اصل نام کیا ہے؟ کیشرو چندر چٹرجی جو کہ چھیروداس چٹرجی میں تبدیل ہو
گیا یاپھر چھیرو داس چٹرجی جو کہ کیشرو چندر چٹرجی میں تبدیل ہو گیا۔اٰل انڈیا
ریڈیو کے میوزیم میں جا کر میں نے دیکھا ہے،ڈراما ہاتھ سے لکھا ہوا اس کے پہلے
صفحہ پر نیلے روشنائی سے’’ منتوش ازبابو کشیرو چندر چٹرجی‘‘ تحریر ہے۔ ا س طرح
ریڈیائی ڈرامے کی روایت ۱۹۳۶ء سے شروع ہوتی ہے۔آغاز میں اس میدان میں بہت سے
ایسے لوگ ہیں جو اسٹیج ڈرامے لکھ رہے تھے، وہ ریڈیائی ڈرامے کی طرف متوجہ ہوئے۔سب
سے پہلا نام سیّد ذوالفقار علی بخاری کا آتا ہے، جنھوں نے ڈرامے تو نہیں لکھے مگر
ڈرامے کو ریڈیو سے جوڑنے میں اہم کردار نبھایا ہے۔ وہ دہلی میں ریڈیو اسٹیشن کے
قیام کے ساتھ ہی اس سے جڑ گئے تھے، اس لیے وہ ریڈیو کے تکنیک سے بخوبی واقف تھے۔
انھوں نے اس دور کے ادیبوں ، دانشوروں اور ڈراما لکھنے والوں کو ریڈیو کے تکنیک سے
روشناس کرایا اور ریڈیو ڈرامے لکھنے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی لکھتے
ہیں ـ:
’’ذوالفقار، اسٹیج ڈراموں کے ماہر ہونے کے باوجود اسٹیج ڈراموں
کی تکنیک کو ریڈیو سے الگ رکھ ، جدید ریڈیو ڈراموں کے موجد بنے۔ اردو میں ریڈیو کی
اس صنف میں پہل کرنے کا نام انھیں کا رہے گا۔‘‘ ۴
ڈرامانگاروں میں سیّد امتیاز علی تاج، سعادت حسن منٹو،
کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، سیّد عابد علی عابد اور مرزا ادیب
قابل ذکر ہیں۔سعادت حسن منٹو نے تقریباً ایک سو ڈرامے لکھے جو ریڈیو سے نشر ہو چکے
ہیں۔ منٹو کے ریڈیائی ڈراموں کے مجموعے: آؤ، تین عورتیں ، کروٹ اور نیلی رگیں قابل
ذکر ہیں۔کرشن چندر کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’دروازہ‘‘ آزادی سے پہلے لاہور سے
شائع ہو چکا ہے۔ اس میں چھ۶ ڈرامے شامل ہیں، (۱)ایک شام (۲) دروازہ (۳) حجامت(۴) بیکاری (۵) نیل کنٹھ (۶)سرائے کے باہر۔ ان کے
علاوہ بھی کرشن چندر نے متعدد ریڈیائی ڈرامے لکھے ہیں جو ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔
بیدی کے ریڈیائی ڈراموں کا پہلا مجموعہ ’’ بے جان چیزیں‘‘ ۱۹۴۳ء میں ادارہ پنچ دریا ، نسبت روڈ لاہور سے شائع ہو
ا اس میں چھ۶ ڈرامے شامل ہیں ۔ دوسرا مجموعہ ’’ سات کھیل‘‘ ۱۹۸۱ء میں مکتبہ جامعہ سے شائع ہوا ہے۔عصمت چغتائی نے
بھی ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ’’شیطان‘‘ شائع ہو چکا ہے
جس میں چھ۶ ریڈیائی ڈرامے شامل ہیں۔
مرزا ادیب نے بے شمار یک بابی ڈرامے لکھے ہیں اور یہ ڈرامے ریڈیو سے نشر بھی ہو
چکے ہیں۔ ڈراموں کے مجموعے : آنسو اور ستارے، لہو اور قالین اور ستون قابل ذکر
ہیں۔
اردو ریڈیائی ڈراموں کے شروعاتی دور میں دیگر زبانوں
مثلاً فرانسیسی، روسی اور بنگالی ڈراموں کے ترجمے کیے گئے اور انھیں ریڈیو کے
ذریعے نشر کیا گیا ہے۔ مترجمین میں حکیم احمد شجاع، سیّد عابد علی عابد، فضل الحق
قریشی، محمد حنیف، نور الٰہی و محمد عمر، امتیاج علی تاج اورسیّد انصار ناصری شامل
ہیں۔سیّد عابد علی عابد نے انگریزی اور بنگالی ڈراموں کا کثرت سے ترجمہ کیا۔ ٹیگور
کے ڈرامے ’’مالن‘‘ ، ’’دیوا پانی‘‘،’’قربانی‘‘اور’’ سنیاسی‘‘کے تراجم کیے جو ریڈیو
سے نشر بھی ہوئے۔فضل الحق قریشی کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’ریڈیو ڈرامے‘‘
۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مولیئر کے ڈرامے کی بنیاد پر
’’تعلیم زدہ بیوی‘‘ لکھا جو بہت مقبول ہوا۔ محمد عمر و نور الٰہی نے بہت سے ڈراموں
کا ترجمہ کیا اور انھیں ریڈیو سے نشر بھی کرایا۔ ان کا ڈراما ’’بلیدان‘‘ ایک جرمن
المیہ قصے سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح ’’پورس‘‘،’’ تخت طاؤس‘‘، ’’سایہ‘‘، ’’ظاہر و
باطن‘‘ اور’’زبردست‘‘ ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔امتیاج علی تاج نے بہت سے ڈراموں کے
تراجم پیش کیے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ریڈیائی سیریئل کی شروعات کی جس میں ’’حریم
قلب‘‘، ’’ان کے ابّا ہنسائیں یا رلائیں‘‘، ’’بیگم صاحبہ کی بلّی‘‘ اور ’’ٹیلی فون
پر‘‘ قابل ذکر ہیں۔انصار ناصری نے فرانسیسی، جرمن اور انگریزی کے بہت سے ڈراموں کے
ترجمے کیے، جن میں آسکر وائیلڈ کے ’’سلومی‘‘ کا ترجمہ ’’سلمیٰ‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اس
کے علاوہ ان کا طبع زاد ڈراما ’’لاڈلا بیٹا‘‘ کامیاب ریڈیائی ڈراموں میں شمار کیا
جاتا ہے۔
آزادی کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح
پاکستان اور ہندوستان دونو ں جگہ ریڈیائی ڈراما نگاری کی متوازی تاریخ سامنے آتی
ہے۔ قدیم ڈراما نگاروں کے ساتھ کچھ نئے لوگ اس قافلہ میں شامل ہوئے۔ پاکستان میں
انتظار حسین، حاجرہ مسرور، بانوقدسیہ ،عشرت رحمانی، شوکت تھانوی اور جاوید اقبال
اہم ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں سلام مچھلی شہری، اوپیندر ناتھ اشک، کرتار سنگھ
دگّل، رفعت سروش، عمیق حنفی، محمدحسن اور شمیم حنفی قابل ذکر ہیں۔انتظار حسین آل
انڈیا ریڈیو لکھنو میں ملازم تھے۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلے گئے۔ ان کے
ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’دل سے قریب‘‘ ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ اس کےعلاوہ ان کے ریڈیائی ڈراموں
میں ’’خرد کا نام جنوں‘‘ اور ’’سائبان کے نیچے‘‘ بہت مقبول ہوئے۔عشرت رحمانی کے یک
بابی ڈراموں کے مجموعے ’’دکھیا سنسار‘‘ ، ’’پریم سنسار‘‘اور انوکھا سنسار شائع ہو
چکے ہیں جو ریڈیو سے نشر بھی ہوئے۔شوکت تھانوی ریڈیو پاکستان لاہور میں ملازمت
کرتے تھے۔وہ ۱۹۶۳ء تک ریڈیو پاکستان سے جڑےرہے۔ ان کے بہت سے ریڈیائی ڈرامے نشر ہوئے
اور ان کے مجموعے شائع ہوئے جن میں منشی جی، سنی سنائی، غالب کے ڈرامے، قاضی جی،
کھی کھی اور ’’مجھے خرید لو‘‘ کا ذکر ہے۔جاوید اقبال ریڈیو کے بہترین ڈراما نگار
ہیں۔آپ کے ڈرامے: دارالسلام، پہلو،گردش، لٹھا، آقا اور مگر مچھ کے بوٹ مقبول
ڈراموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔اوپندر ناتھ اشک کا مقبول ڈراما’’پاپی‘‘ لاہور
اسٹیشن سے متعدد بار نشر ہو چکا ہے۔ آپ دلّی ریڈیو اسٹیشن میں ملازم تھے۔ آپ کے
ریڈیائی ڈراموں کے مجموعے : دیوتاؤ ں کی چھاؤںمیں ، چرواہے، پکّا گانا، پردہ اٹھاؤ
پردہ گراؤ، اندھی گلی اورصاحب کو زکام ہےشائع ہو چکے ہیں۔کر تار سنگھ دگّل آل
انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’اوپر کی
منزل‘‘ شائع ہوا جس میں پانچ ڈرامے شامل ہیں۔رفعت سروش ایک عرصہ تک ریڈیو سے
وابستہ رہے ہیں۔ پرو ڈیوسر رہنے کے ساتھ متعدد ریڈیائی ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے
ریڈیائی ڈراموں کے دو مجموعے ’’ڈگر پنگھٹ کی‘‘ اور’’زندگی اک سفر‘‘ شائع ہوچکے
ہیں۔محمد حسن نے اسٹیج، ریڈیو اور ٹی وی تینوں کے لیےڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے
ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’ پیسہ اور پرچھائیں‘‘ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔شمیم حنفی
ایک اچھے شاعر، نقاد اور ڈراما نگار ہیں۔ ریڈیائی ڈراما نگاری میں ایک بلند مقام
رکھتے ہیں۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ مٹی کا بلاوا،
مجھے گھر یاد آتا ہے، زندگی کی طرف اور بازار میں نیند۔
آج جبکہ ٹیلی ویژن ڈرامے اور فلموں کا دور دورہ ہے۔ریڈیو کے
پرائمری چینلوں کی جگہ ایف․ ایم․ریڈیو کا چلن زیادہ ہو چلا ہے،ابھی اس کے ذریعے کم از کم اردو
کے ریڈیو ڈرامے پیش نہیں کیے جا سکے ہیں پھر بھی اٰل انڈیا ریڈیو کے اردو سروس اور
دیگر مختلف شہروں کے ریڈیواسٹیشنوں سے اردو ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں، جو سامعین کے
دلچسپی کا مظہرہے۔ موجودہ دور میں اردو کے ریڈیائی ڈراما نگاروں میں ریوتی شرن
شرماـ-ـــــــــــــدہلی ،زبیر رضوی- دہلی، علی محمد لون -سری نگر،
اقبال مجید- بھوپال اورنثار نسیم – سری نگر قابل ذکر ہیں۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی مکالمہ نگاری میں فرق
کہا جاتا ہے، ہم برصغیرپاک و ہند کے عوام بولنے کے
اور سُننے کے رسیا ہیں ہندستان پاکستان میں کسی بھی فلم یا ٹی وی ڈرامے میں
مکالموں کی بھر مار ہوتی ہے، جب کہ مکالمہ کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے ہونا چاہیے۔
یا جو بات آپ اسکرین پلے میں نہیں کَہ پاتے، اس کے لیے آپ مکالمے کی مدد لیتے ہیں۔
اس پہ بعد میں بحث کریں گے، کِہ جو بات اسکرین پلے میں کہی جا سکتی ہے، اسے مکالمے
میں کیوں نہیں کہنا چاہیے۔ بہ ہر حال یہ کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے، کہ کس
اسکرین پلے میں کتنے فی صد مکالمے ہونے چاہیے، بل کِہ آرٹ کی کسی بھی فارم میں
کوئی رائے حتمی نہیں ہوتی۔ اس لیے کِہ کوئی بھی فن ریاضی کی طرح دو اور دو کا جواب
چار نہیں دیتا۔ یہاں دو اور دو کا جواب پانچ بھی ہو سکتا ہے، تین بھی اور صفر بھی۔
لیکن اسکرین پلے چوں کہ ارٹ سے زیادہ کرافٹ کا کھیل ہے، تو اس میں ریاضی کاعمل دخل
رہتا ہے۔
یہ نہیں کہ اسکرین پلے رائٹنگ آرٹ نہیں ہے۔
آرکیٹکٹ نقشہ بناتا ہے، تو ریاضی کے اصولوں کی پے روی کرتا ہے، لیکن نقشہ بناتے اس
میں اس کا دِل شامل ہوتا ہے۔ اسکرین پلے رائٹر نقشہ نویس ہے، پھر راج مستری،
مزدور، الیکٹریشن، رنگ روغن کرنے والے اپنا اپنا کام دکھاتے ہیں۔ سب کچھ اس بنیادی
نقشے کے اندر رہتے ہوتا ہے۔ تو اسکرین پلے رائٹر کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے کا
آرکیٹیکٹ ہوتا ہے۔ عمارت کے حُسن اور مضبوطی کا انحصار اس نقشے کے ڈزائن پر ہوتا
ہے۔
اسکرپٹ میں مکالمہ نگاری اسکرپٹ کی مینا کاری ہے۔
کسی عمارت میں کہاں مینا کاری ہونی چاہیے، کتنی ہونی چاہیے، یہ ہر عمارت کا نقشہ
دیکھ کر ہی طے کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کوئی اسکرپٹ مکالمے پر انحصار کرتا
ہو، اور یہ بھی کہ کوئی اسکرپٹ ایسا ہو جس میں مکالمے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
مکالمہ بنیادی طور پہ جذبات و احساسات کے پہلو بہ
پہلو کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے ہوتا ہے۔ کہانی کی رفتار تیز کرنے کے لیے، یا
ابلاغ کو عام فہم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ مکالمہ اسکرین پلے کی بائنڈنگ فورس کا کام
بھی دیتا ہے۔ مکالمے سے جہاں کردار کے جذبات و احساسات کا اظہار ہوتا ہے، وہیں اس
کی شخصیت کا پتا بھی ملتا ہے، کِہ اُس کا اندازِ فکر کیا ہے۔ کہانی میں پیش آئے
واقعات پر جب وہ مکالمہ کرتا ہے، تو ناظر و سامع پہ اُس کی سوچ واضح ہوتی ہے۔ اسی
طرح مکالمے کی مدد سے کردار کی کیفیات کا پتا بھی چلتا ہے۔ معلوماتی، تفہیمی،
خبریہ، حرکات و سکنات یا ارادے کا اظہاریہ، تقریری یا مناظراتی، یہ مکالمے کی چند
ایک صورتیں ہو سکتی ہیں، جو ابھی میرے ذہن میں آ رہی ہیں۔
مکالمے کی ایک صورت، جو اسکرین پلے کو آگے بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔
ہماری فلموں، ٹی وی ڈراموں میں یہ مثال عام ہے۔ ایک کردار زید، دوسرے کردار سے، بکر
کے بارے میں پوچھتا ہے، "بکر کہاں ہے”؟ اسکرین پلے میں ہم اگلا منظر بکر کی
مصروفیت کا دکھاتے ہیں۔ تو اس طرح یہاں مکالمے کے ذریعے اگلے منظر کا جواز پیدا
کیا گیا ہے۔ مکالمےکی ایک صورت وہ ہے، کِہ جس سے کردار کا تعارف کروایا
جاتا ہے۔ گبر سنگھ ابھی اسکرین پر نمودار نہیں ہوا۔ بستی کے لوگ اس کا ذکر کرتے اس
کی بربریت کو بیان کر رہے ہیں۔ ناظر نے ابھی گبر کو دیکھا نہیں ہے، لیکن وہ گبر سے
آشنا ہو رہے ہیں۔ انھیں بستی والوں کے مکالموں سے گبر کے پیشے، گبر کی دہشت کا
اندازہ ہوتا ہے۔ ان مکالموں میں گبر یعنی ایک کردار کے بارے میں معلومات بھی ہیں۔
اس کردار کی صفات بھی بیان ہو رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ناظر و سامع پر اس ان
دیکھے کردار کی ہیبت بھی بٹھائی
جا رہی ہے۔
مختصراََ یہ کہ مکالمہ بہت جامع ہونا چاہیے۔ مکالمے میں ایک لفظ آگے
پیچھے ہو جانے سے مفہوم کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔ مکالمہ لکھتے، ہمیشہ ذہن میں اس
منظر کی تصویر ہونی چاہیے۔ جو منظر آپ کے تخیل میں ہے، جس منظر میں کردارموجود
ہیں، اُسے پہلے خود پہ بہت واضح کر لیں۔ منظر میں کمرے کی دیواروں پہ کیسی پینٹنگز
آویزاں ہیں؟ کمرے میں کرسیاں ہیں، سوفا سیٹ رکھا ہے؟ کھڑکیاں، پردے، پنکھا، اے سی،
الغرض لکھنے والے کو معلوم ہونا چاہیے، وہ جن کرداروں کے مکالمے لکھنے چلا ہے، وہ
کردار جس منظر میں موجود ہیں، اس منظر کا موسم کیسا ہے، درجہ حرارت کیا ہے۔ نا صرف
یہ کِہ موسم کا درجہ حرارت، بل کِہ کہانی میں اس منظر کا درجہ حرارت بھی معلوم ہو
کہ کیا ہے۔
ریڈیو کے مکالمے اور اسکرین پلے کے مکالموں میں زمین آسمان کا فرق
ہے۔ ایک کرادر عائشہ، دوسرے کردار بُشری سے کہتی ہے، "تم نے سر پہ جو لال
دُپٹا اوڑھ رکھا ہے، یہ مجھے دے دو”۔ تو یہ ریڈیائی مکالمہ ہو سکتا ہے۔ یہی بات
اسکرین پلے کے مکالمے میں کہی جائے گی، تو اس مکالمے میں "لال دُپٹا” اضافی
ہے۔ مزید یہ کہ "تم نے سر پہ جو اوڑھ رکھا ہے”، بہت ممکن ہے، اس مکالمے میں
یہ الفاظ بھی اضافی محسوس ہوں۔ اسکرین پلے اور ریڈیو میں تصویر نہیں ہوتی۔ سامع کو
لفظوں کے ذریعے تصویر بنا کے دکھانی ہوتی ہے۔ اسکرین پہ تصویر ہوتی ہے۔ بشری نے
کیا پہن رکھا ہے، کس رنگ کا پہن رکھا ہے، کیا اوڑھ رکھا ہے، کس رنگ کا اوڑھ رکھا
ہے، اسکرین پہ دکھائی دے گا۔یہ تفصیل کاغذ پہ دائیں ہاتھ پر لکھی ہوتی ہے۔ اسکرپٹ
کے ہدایات کے خانے میں لکھا جائے گا، "بشری نے سُرخ رنگ کا دُپٹا اوڑھ رکھا
ہے۔ عائشہ اُسے کہتی ہے: "یہ دُپٹا مجھے دے دو”۔ یا شاید اتنا کہنا کافی ہو،
"یہ مجھے دے دو”۔کیوں کِہ ایسا کہتے، عائشہ کا اشارہ اُس کے سر کے دُپٹے کی
طرف ہے، اور ناظر یہ منظر دیکھ رہا ہے۔
یہ وہ مثال ہے، جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہو چکا، کِہ جب شروع شروع
میں ٹی وی ڈرامے لکھے گئے، تو ان پر ریڈیو کے اثرات تھے۔ لکھنے والوں کی مشق،
ریڈیو ڈراما لکھنے کی تھی، ریڈیو ڈرامے میں مکالموں کے ذریعے منظر کشی کی جاتی ہے۔
ٹی وی یا اسکرین کے لیے ایسا لکھتے، ان کے مکالموں کی یہ خامی بن گئی، جو ریڈیو کے
لیے لکھتے خوبی کہلاتی ہے۔
اسی طرح تیس چالیس پچاس سال پہلے کی فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں طویل
مکالمے اسٹیج سے متاثر ہو کے لکھے جاتے رہے۔ اسٹیج پہ بار بار منظر نہیں بدلتا۔
ایک ایکٹ، دو ایکٹ، تین ایکٹ کے ڈرامے اسٹیج ہوتے تھے، جن میں کردار طویل مکالمے
بولتے تھے۔ مکالموں ہی کے ذریعے ڈرامائی صورت احوال پیدا کی جاتی تھی، اور ان
مکالموں سے کہانی آگے بڑھائی جاتی تھی۔ اسٹیج پہ منظر نہیں بدلتے، بل کِہ کردار
اپنے اپنے مکالمے ادا کر کے اسٹیج چھوڑتے جاتے ہیں، یا دوبارہ اِنٹری لیتے ہیں۔
اسکرین پہ ہمارے پاس یہ سہولت ہے، کِہ ہم اپنی کہانی کی ضرورت کے مطابق، یا کہانی بیان
کرنے کی رفتار کے مطابق منظر تبدیل کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔اس لیے جس منظر میں،
مکالمے کی جس حد تک ضرورت ہے، اتنے ہی مکالمے لکھے جاتے ہیں اور پھر منظر بدل جاتا
ہے۔ ڈرامائی صورت احوال پیدا کرنے کے لیے مکالمے ہی کی مدد نہیں لی جاتی، بل کِہ
منظر کشی میں ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں، کِہ ڈرامائی صورت احوال نمودار ہو
جاتی ہے۔ اسکرین پہ طویل مکالموں کی ضرورت وہیں پڑتی ہے، جہاں کوئی ڈرامائی صورت
احوال پیدا ہو چکی ہو، جذبات کی شدت ہو۔اور ایسے میں کردار کے مکالمے اُس کی کیفیت
اس کے جذبات واحساسات کا اظہار کرتے ہیں۔
Post a Comment