سندھی زبان کے ارتقاء میں سمہ دور کے اثرات
سمہ عہد
سمیہ قبیلے کو بھی بالعموم سندھی النسل اور نومسلم
مقامی راجپوت ہونے پرفخر تھا جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا
تھا۔ اور ان کے بزرگ بالعلوم جام‘‘ کے لقب سے جانے جاتے
تھے۔ ہر چند بعض مورخین انھیں عرب کے عکرمہ بن عصام کے قبیلے کی باقیات بتاتے ہیں
لیکن زیادہ تر مؤرخین کا خیال نہیں ہے کہ یہ لوگ گجرات ، کاٹھیا واڑ اور زبریں
سندھ کے علاقے میں آباد راجپوت خاندانوں پرمشتمل قبیلہ تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ
مال دار بھی ہوتا گیا اور طاقت ور بھی ۔ سومروں کے کم زور ہو جانے کے بعد سموں نے
ٹھٹھہ اور پایہ تخت ، محمد تور، پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں سموؤں
نے سومروں کے دور میں پیدا ہو جانے والی یورش کو ختم کر کے امن و امان قائم کر
دکھایا تھا۔ سومروں اور سموں کے عہد حکومت مجموعی طور پر پانچ برس پرمشتمل ہے اور
اس طویل مدت میں سندھی تمدن، زبان اور ثقافت کو فروغ اور اس کام کے سنہری مواقع
فراہم ہوئے ہیں ۔ سومروں اور سموں کے دور میں بھی اگر عربی اور فارسی کو سرکاری و
دفتری زبانوں کی حیثیت حاصل رہی ہے لیکن چونکہ سومروں اور سموں کی مادری زبان
سندھی تھی، اس لئے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حد تک اس زبان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی
رہی ہے اور اس زمانے میں عوامی سطح پر سندھی زبان کو عام بول چال اور بازاری لین
دین کی زبان کے طور پر اختیار کیا گیا اور سندھی کے شاعروں نے بھی اسے اپنے اظہار
کا وسیلہ بنایا تھا۔ بلکہ سومرہ عہد سے قبل ہی سندھی زبان کے رابطے کی زبان ہونے
کا ثبوت ملتا ہےجومختلف علاقوں اور مختلف قبائل میں جدا جدا لہجے میں بولی جاتی
تھی۔ گجرات کے در باری شاعر کو ئی راجن شنکر جس نے سندھی زبان کے بارے میں لکھا کہ:
یہ ( سندھ ) عام ملکوں کا تاج ہے، یہاں کے باشندے
سنسکرت کے نام سے دور ہیں، وہ اپنی خوب صورت دیسی زبان میں نہایت ہی لطف و شیرینی
کے ساتھ بات کرتے ہیں ۔ یہاں کی انوکھی ادبی زبان اور خولی لاز (زیر یں سندھ) کے
شعرا کے لیے مخصوص ہے۔ ان کے شعر کی پیاری اور پسند یدہ طرز جس کی امتیازی خصوصیت،
رنگین اور لطافت ہے ۔ سندھی طرز کے نام سے مشہور ہے۔
سمہ
عہد حکومت میں سندھی ادب
سمہ حکومت کے زمانے میں ہمسایہ ملکوں سے سیاسی، معاشی
اور معاشرتی تعلقات کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں کے باہمی تعلقات بڑھے بلکہ
بادشاہوں نے بھی سماجی رشتے استوار کیے، کچھ کاٹھیا واڑ اورلسبیلہ تک سمہ حکمرانوں
نے اپنا تسلط قائم کیا ۔ اسی وجہ سے حاکموں کی مادری زبان سندھی ، ہمسایہ ملکوں
یعنی کچھ کاٹھیا واڑ ، قلات اسبیلہ ، گوادر اور مکران کے جدگال علاقوں تک پھیل گئی
۔
سمیہ دور کے ادبی ذخیرے کو بھی سومرہ دور کے عنوانات
میں تقسیم کیا جاسکتا ہے مثلا :
عشقیہ اور نیم عشقیہ داستانیں
مذہبی تحریکیں اور گئے
رزمیہ قصے
گیت
واقعاتی ابیات
مدحیہ قصے
مدحیہ قصے
اس دور میں بھی نامور سردار اور بہادر ہوئے ہیں، جن میں
جام لاکھو، جام جکھرو، ڈھوجکھرانی، و کیوڈ اتار، رائے ڈیاچ، جام ابڑ اسمہ اور دیگر
سمہ سرداروں کی بہادری اور سخاوت کے کارنامے مشہور ہیں ۔ ان کے کارناے گا ہوں‘‘ کی
صورت میں چاران‘اور’ بھاٹ‘ بیان کرتے ہیں ۔ ان گاہوں میں سے ایک گابہ (کا تھا ) کا
ترجمہ چو جام لا کھا سے متعلق ہے۔
ایک قسم کے پھول وہ ہیں جو کھیتوں میں نظر آتے ہیں
اور دوسری قسم کے پھول وہ ہیں
جو بھاڑ میں پکا کر کھل جاتے ہیں
اے لا کھا ، اب سہوان کی طرف واپس آ جاو
کیونکہ تمھارے بغیر
کا جھرنے، کا خطہ سوتا نظر آتا ہے
۔ مذہبی تحریکیں اور گنان
اسماعیلی تحریک
سومرہ دور کے بیان میں اسماعیلی فرقے کی تحریک اور اس
کے داعیوں کے کلام کا ذکر کیا گیا ہے۔ سمیہ دور میں بھی اسماعیل تبلیغ جاری رہی ۔
پیر صدر الدین نے اپنی زندگی کا نصف سے کچھ کم حصہ اس دور میں گزارا۔ علاوہ اس کے
آپ کی نگرانی میں آپ کے بیٹے پنجاب ، آچ، ملتان اور
زیریں سندھ ڈھنڈی ، جون، بدین ، رژی، دہرہ اور گجرات میں تبلیغی کام پر مامور ہے۔
پیر صدرالد ین کے صاحبزادہ پیر حسن کبیر الدین (1343ء- 1513ء) اور پیرتاج الدین کا
کلام بھی سندھی کبھی ، سرائیکی ، گجراتی اور ہندی میں ملتا ہے۔
مہدوی تحریک کا اثر
اس دور میں مہدوی تحریک نے سندھ کے بہت سے علما و فضلا
کو متاثر کیا جن میں قاضی قاضن ، قاضی شیخ محمد اچوی جعفری، جام مند، کے وزیر دریا
خان (م -1519 ء)، میاں ابوبکر بکھری، پر اسات، مولوی شیخ لیا اور شیخ صدرالدین کے
نام قابل ذکر ہیں ۔ اس تحریک کی وجہ سے ایک ذہنی انقلاب ظہور پذیر ہوا۔
ماموئی فقیر اور ان کے ابیات
ماموئی فقیروں کے ابیات سمیہ گھرانے کے دور میں جام
تماچی کے زمانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ یہ فقیر ہفت تن‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہیں
۔ ان کے ابیات کو سندھ کے مؤرخین نے پیشن گوئیاں قرار دیا ہے ۔ سندھ کی تاریخ،
جغرافیہ اور ثقافت کے لحاظ سے ماموئی فقیروں کے ابیات خاص اہمیت رکھتے ہیں ان
ابیات کی روشنی میں سمہ گھرانے کے دور حکومت کی تاریخ اور جغرافیہ کا جا ئزلیا جا
سکتا ہے ۔ ایک بیت کا ترجمہ دیا جا تا ہے۔
ہاکٹر ادریا بڑی شان سے بہنے لگے گا
او را روڑ کے پاس سے دریا کا بند ٹوٹے گا
بھیہ اور مپھلی پچھلی سمہ حاکم کی طرف
تحفے کے طور پر بھیجی جائے گی۔
اسی دور میں شاہ مراد شیرازی کا دعائی فقرہ بہت مشہور
ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
اسے گھر کے فردخدا تم کو بھی عمر دے۔“
سمہ دور حکومت کے شعراء
اس دور میں سندھی ادب کا تحریری ذخیرہ بکثرت ملتا
ہے ۔ کلام میں مضامین کی وسعت ملتی ہے۔ شاعری میں صوفیانہ اور ناصحانہ مضامین کے
علاوہ عاشقانہ خیالات کو بھی جگہ دی گئی ۔ اس دور کے مشہور شعرایہ ہیں ۔
پیرحسن کبیر الدین (1343ء۔ 1413ء)
پیر صدرالدین کے فرزند تھے۔ آپ کا مزار اچ شریف میں ہے
جہاں آپ حسن دریا کے نام سے مشہور ہیں ۔ آپ کا کلام سندھی، سرائیکی ، گجراتی اور
ہندی میں ملتا ہے۔ آپ کے گمان سے ایک ترجمہ دیا جا تا ہے۔
اے غافل ہوشیاررہ!
تجھے سونانہیں چاہیے
اس اندھیری رات میں اپنے رب کو پہچا نو !
پیرحسن کبیر الدین ارب سے عرض کرتا ہے
کہ اے رب ! اس بند پراپنا فضل کر
پیر تاج الدین
آپ پیر حسن کبیر الدین کے بھائی تھے۔ زیریں سندھ میں
تبلیغ کے کام پر مامور تھے۔ آپ کے ایک گنان کا ترجمہ دیا جا تا ہے۔
مرشد سے وعدہ کر کے جن لوگوں نے
وفا داری نہیں کی ، ان سے تعلق نہیں رکھنا چاہیے
مرشد نے بیالیس سروں میں پیالیس اقوال بنائے ہیں
اور وہ ان کو نہیں سن سکتے
اس اندھیری رات میں
مرشد کی چاند جیسی حیثیت ہے
مرشد کے علوم سے فضا روشن ہو جاتی ہے
پیر تاج الدین کہتا ہے کہ شاہ سے محبت کرو
اور اس محبت کا پھل حاصل کرو
مخدوم
احمد بھٹی (م ۔ 1529ء/936ھ)
ہالہ کنڈی (ضلع حیدر آباد کے ایک مشہور درویش اسحاق
بھٹی کے بیٹے تھے اور بہا الدین زکریا ملتانی کے مرید تھے۔ ایک دن سماع کی ایک
مجلس میں ایک سنارلڑکے نے ایک دو ہا بہت سوز سے گایا ۔ اسے سن کر مخدوم صاحب نے دم
توڑ دیا ۔ اس دوہے کا ترجمہ یہ ہے۔
وہ لوگ جو محبوب کی آواز سن کر
واپس نہیں آتے
وہ دوستی کا دعوی کیوں کرتے ہیں؟
Post a Comment