طنزیہ و مزاحیہ شاعری | Assignments Aiou 2022 | MA urdu | Urdu Poetry | مزاح نگاری
مزاحیہ و طنزیہ شاعری کا جدید اسلوب
طنزیہ
و مزاحیہ شاعری کے جدید ترین عہد کا آغاز۱۹۸۰ء سے
ہوتا ہے۔ اس عہد میں مزاحیہ مشاعروں کی دھوم پاک وہند سے نکل کر دنیا کے کئی ممالک
تک پھیل گئی۔ جہاں جہاں اردو سمجھنے اور بولنے والا طبقہ موجود تھا، وہاں مزاحیہ
مشاعروں کا اہتمام ہونے لگا۔ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور پرنٹ میڈیا نے ان مشاعروں اور
مزاحیہ شعرا کو وہ اہمیت دی جو اس سے پہلے کبھی ان کے مقدر میں نہ آئی تھی۔ یہاں
اس عہد کے ان نامور شعرا کا ذکر کیا جا رہا ہے جنھوں نے مزاحیہ شاعری کو کسی نہ
کسی حوالے سے نئی جہت دی۔
۱۔ سیّد ضمیر جعفری
طنزیہ
و مزاحیہ اردو شاعری کے جدید ترین دور کا ایک معتبر نام سیّد ضمیر جعفری ہے۔ان کی
غزلیں اور نظمیں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو اپنے دامن میں
سموئے ہوئے ہیں۔ ان کے اسلوب کی خوبصورتی اور تہ داری ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری
کو ایک منفرد پہچان دیتی ہے جس کا دھیما پن ہر مصرعے سے جھانک کر تبسم و لطافت کے
بے شمار زاویوں کو جنم دیتا ہے۔ضمیر جعفری اپنے ہر موضوع سے اس قدر قریب ہو کر اس
کی پنہائیوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ ایک متحرک نقش کی طرح صفحۂ قرطاس پر
دکھائی دینے لگتا ہے۔بقول ڈاکٹر ظفر عالم ظفری:
’’سیّد ضمیر جعفری ایک اچھے مصور سے کسی طرح
بھی کم نہیں۔ وہ لفظوں کے ایسے ایسے پیکر تراشتے ہیں کہ متعلقہ شخصیت کے تمام نشیب
و فراز ابھر کر اس طرح سامنے آتے ہیں کہ قاری لطف وسرور کی فضا میں خود کو کھو
دیتا ہے۔ ضمیر اپنے موضوع میں اس طور پر جذب ہو کر لکھتے ہیں کہ ان کی نظم یا غزل
کا ایک ایک لفظ داستان بن جاتا ہے۔۔۔۔‘‘ [۲۱]
ان
کی نظمیں ’’بفے ڈنر، شہر کا بڑا بازار، ضمیر کا گھر،سابق منسٹر، پرانی موٹر، یہ
کوہاٹ ہے،وبائے الاٹمنٹ‘‘ وغیرہ اسی مصورانہ رجحان کی عکاس ہیں جس کا تذکرہ درج
بالا اقتباس میں کیا گیا ہے۔پاکستان کے قیام کے فوراً بعد جس بے پرواہی اور غیر
منصفانہ طریقے سے جائیدادوں کی بندر بانٹ کی گئی،اس کو ضمیر جعفری نے اپنی نظم
’’وبائے الاٹمنٹ‘‘ میں بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے:
ہر
سمت ہے بلند صدائے الاٹمنٹ
ہائے
الاٹمنٹ تو وائے الاٹمنٹ
دنیا
ہے اور دین ولائے الاٹمنٹ
اب
لوگ جی رہے ہیں برائے الاٹمنٹ
بندے
کا اب خدا ہے خدائے الاٹمنٹ
چکی
ملے، مشین ملے، بادباں ملے
پانی
ملے، زمین ملے، آسماں ملے
کچھ
تو مری جناب ملے، مہرباں ملے
ہر
چند حق نہیں ہے، مگر پھر بھی ہاں ملے
یعنی
الاٹمنٹ برائے الاٹمنٹ
رہڑی
جو بیچتا تھا اسے فیکٹری ملی
پورے
تعلّقے کے عوض لانڈری ملی
اک
در ہوا جو بند تو بارہ دری ملی
ووٹر
کوئی ملا نہ ملا لیڈری ملی
اور
لیڈری بھی وہ جو کرائے الاٹمنٹ
کتنے
مہاجرین تو آ کر چلے گئے
پٹ
توڑ کر، کواڑ جلا کر چلے گئے
دیوار
و در کو ٹھوک بجا کر چلے گئے
یعنی
مکیں مکاں ہی اٹھا کر چلے گئے
ہے
سر پہ ساتھ ساتھ ہُمائے الاٹمنٹ
کل
تک گلی کے موڑ پر جو کوٹتے تھے ٹین
’’تختہ بدوش، ٹھیلا بدست و تھڑا نشین‘‘
اک
اک کے پاس آج مشینیں ہیں تین تین
اکثر
بزرگ ان میں ہیں ’لوکل مہاجرین‘
بیٹھے
ہیں دبدبے سے دبائے الاٹمنٹ
ضمیر
جعفری کی طنزیات میں سادگی اور شائستگی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہ طنز کی کڑی کمان سے
تیر برسانے کے بجائے اپنے شکار کا علاج حکیمی معجونوں سے کرتے ہیں جن کی مٹھاس اس
کی کڑواہٹ پر غالب رہتی ہے۔ وہ طنز کے ہتھیاروں سے جنگ کرنے کے بجائے جنگ روکنے کا
اہتمام کرتے ہیں۔ طنز کے متعلق ضمیر جعفری کا اپنا نقطۂ نظر درج ذیل ہے :
’’میرے لیے طنز کا مسئلہ تکلیف دہ رہا ہے۔ میں طنز کو مزاح کا جڑواں بھائی سمجھتا ہوں۔ اس بات کا بھی قائل ہوں کہ اس کے بغیر حقیقت پسندی کا عنصر پنپنے نہیں پاتا بلکہ یہ بھی کہ اگر مزاح میں سے طنز کو خارج کر دو تو باقی چربی یا ’’چرب زبانی‘‘ رہ جاتی ہے۔ مزاح بذاتِ خود بھی جمعہ کے لباس میں رہتا ہے۔ میں طنز کو ’’تیغ و کفن‘‘ پہنا کر میدانِ جنگ میں اتارنے کا قائل نہیں ہوں۔۔۔وہ بے شک لڑے مگر ہاتھ میں تلوار نہ ہو۔۔۔طنز کی تلخی میرے نزدیک مزاح کو بد مزہ اور نک چڑھا کر دیتی ہے۔۔۔جو مزاح دوسروں کو خوش نہیں کرتا وہ میری رائے میں اعلیٰ مزاح نہیں۔۔۔۔‘‘ [۲۲
]
یہی
وجہ ہے کہ ضمیر کی تقریباً تمام طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ہمیشہ مزاح نے طنز کو
دبائے رکھا ہے اور طنز کی ہلکی پھلکی لہریں ٹھنڈے پانی کی طرح سطحِ مزاح کے نیچے
ہی رہتی ہیں۔ مزاح کے طنز پر حاوی رہنے کی خصوصیت اعلیٰ ظرافت کی آئینہ دار ہے اور
اس کی لطافت کے دیرپا ہونے کا ثبوت بھی۔ ایسی ہی ایک مثال درج ذیل غزل میں دیکھیے،
جس کا ہر شعر اپنے اندر الگ مفہوم سمیٹے ہوئے ہے:
شوق
سے لختِ جگر نورِ نظر پیدا کرو
ظالمو!
تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
ارتقا
تہذیب کا یہ ہے کہ پھولوں کی بجائے
توپ
کے دھڑ، بم کے سر، راکٹ کے پر پیدا کرو
شیخ،ناصح،
محتسب، ملا، کہو! کس کی سنیں ؟
یارو
کوئی ایک مردِ معتبر پیدا کرو
میں
بتاتا ہوں زوالِ ا ہلِ یورپ کا پلان
اہلِ
یورپ کو مسلمانوں کے گھر پیدا کرو
حضرتِ
اقبال کا شاہیں تو ہم سے اُڑ چکا
اب
کوئی اپنا مقامی جانور پیدا کرو
انسانوں
کے انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم ہوں یا اپنی کوتاہیوں کا بار دوسروں کے سر
تھوپنا، تہذیب کے نام پر بہترین قدروں کا قتل ہو یا مساوات کے نام پر غریبوں کی حق
تلفی،ضمیر جعفری نے طاقتور انسانوں کے بھیڑیئے بننے کی داستانیں ان کے مکمل اعمال
کے ساتھ رقم کی ہیں۔ ایسی داستانیں بیان کرتے ہوئے ان کا طنزیہ لہجہ زہر آلود ہونے
سے گریز نہیں کرتا:
کس
کس ہنر میں آج ترقی نہیں ہوئی
کیا
کیا شرف بشر پہ اتارا نہیں گیا
تہذیب
کے کمال کا یہ رخ بھی دیکھیے
کس
کس طرح سے آدمی مارا نہیں گیا
اس
کو کون کہے گا تحفہ، خالص کھرے نصیبوں کا
ایک
امیر کے گھر میں رزق پچاس ہزار غریبوں کا
سج
رہی تھی جس جگہ کل تک کتابوں کی دکان
اس
جگہ اب ’’لکڑیوں کا ٹال‘‘ دیکھا
جائے گا
ایک
چمچہ دال کا اور ایک ٹکڑا نان کا
امتحاں
روزانہ لیتا ہے مرے ایمان کا
کر
لیا ایک جست میں گو ماہ و انجم کو شکار
مر
نہیں پایا ابھی تک بھیڑیا انسان کا
ہم
کریں ملت سے غداری، قصور ا نگریز کا
ہم
کریں خود چور بازاری، قصور انگریز کا
گھر
میں کل بینگن کے بھرتے میں جو مرچیں تیز تھیں
اس
میں بھی ہو گا بڑا بھاری قصور انگریز کا
سیدّ
ضمیر جعفری نے ما فی الضمیر، ولایتی زعفران، ضمیریات، ضمیرِ ظرافت، بے کتابے،
شناخت پریڈ،دست و داماں وغیرہ جیسے طنزیہ و مزاحیہ شعری مجموعے یادگار چھوڑے جو
’’نشاطِ تماشا‘‘ کے نام سے کلیات کی صورت میں بھی چھپ چکے ہیں۔
۲۔ دلاور فگار
دلاور
فگار کے کلام میں سماجی، سیاسی اور قومی مسائل کا ہنگامی پن جھلکتا ہے۔ اخباری
خبروں پربھی قطعات وغیرہ لکھتے رہے لیکن یہ کیفیت تمام کلام کا احاطہ نہیں کرتی
بلکہ ان کی مستقل نوعیت کی طنزیہ و مزاحیہ نظمیں اور غزلیں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ان
کی مستقل نوعیت کی شاعری کے موضوعات میں وسعت ہے اور ہر آن بدلتی عالمی و ملکی
صورتحال،عصری مسائل،فرقہ بندی،تعصب،عاشق و محبوب اور خاندانی منصوبہ بندی کو گرفت
میں لیے ہوئے ہے۔دلاور فگار کی قادرالکلامی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں :
نہ
اردو ہے زباں میری،نہ انگلش ہے زباں میری
زبان
مادری کچھ بھی نہیں،گونگی ہے ماں میری
لے
کر برات کو ن سپر ہائی وے پہ جائے
ایسی
بھی کیا خوشی کہ سڑک پر وصال ہو
اک
بار ہم بھی راہنما بن کے دیکھ لیں
پھر
اس کے بعد قوم کا جو بھی حال ہو
دین
آدھا رہ گیا، ایمان آدھا رہ گیا
پھر
تعجب کیا جو پاکستان آدھا رہ گیا
وہ
سمجھتا تھا کہ یہ بھی اشرف المخلوق ہے
آدمی
کو دیکھ کر شیطان آدھا رہ گیا
ناپ
کر دیکھا تو قد میں کچھ درازی آ گئی
تول
کر دیکھا تو ہر انسان آدھا رہ گیا
قطعاتِ
دلاور فگار خاصے کی چیز ہیں۔ ان میں کوئی نہ کوئی اہم مسئلہ کھل کر سامنے آ جاتا
ہے اور مزاح کی چاشنی طنز کی دوا میں شامل ہو کر اسے پُر لطف بنا دیتی ہے۔ ایسا ہی
ایک قطعہ دیکھیے :
رشوت
حاکم
رشوت ستاں فکر گرفتار ی نہ کر
کر
رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں
بتاؤں تجھ کو، تدبیر رہائی مجھ سے پوچھ
لے
کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا
۳۔ مسٹر دہلوی
انھوں
نے نظم،غزل اور قطعات کی اصناف میں کئی موضوعات کو پابند کر دیا۔ عصری ماحول سے
متاثر ہو کر زمانے کے سردوگرم کی حکایات کا ظریفانہ بیان ان کی شاعری میں درد کی
ایک لَے پیدا کرتا ہے اورانگریزی الفاظ کا مناسب استعمال شعر ی ابلاغ میں معاونت
کرتے ہوئے مزاح بھی پیدا کرتا ہے۔مثلاً:
حسن
پیمائش
اہلِ
مغرب کے برابر ’’ٹو دی پوائنٹ‘‘ ہونا
ہم
سے ممکن نہیں گو لاکھ کریں ان کی ریس
نظیر
اکبر آبادی کی نظم ’’بنجارہ نامہ‘‘ کی پیروڈی ’’ماڈرن بنجارہ نامہ‘‘ میں انسان،
مولانا، انجینئر، بیگم، لیڈر، طبیب، سرکاری افسر، سائس دان اور شاعر وغیرہ پر طبع
آزمائی کی گئی ہے۔اس کے چند بند ملاحظہ ہوں :
گو
چومتے ہیں سب ہاتھ ترے
اور
تو بڑا ہے اک مولانا
مت
بھول کہ غافل تجھ کو بھی
اِک
روز یہاں سے ہے جانا
کیا
بکرے، نقدی، شیرینی
کیا
نذر، نیاز اور نذرانہ
کیا
دعوت صبح و شام تری
کیا
مرغِ مسلم روزانہ !
’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب
لاد چلے گا بنجارہ‘
ہاں
تو ہے بڑے گھر کی بیگم
چلتا
ہے اشارے پر شوہر
ہے
گھی میں پانچوں انگلیاں تر
کل
ہو گا کڑاہی میں بھی سر
کیا
بنگلے موٹر فرنیچر
اک
ایک قدم پر اک نوکر
کیا
کپڑے لتّے اور زیور
کیا
ہاتھ ہلے بن لقمۂ تر
’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب
لاد چلے گا بنجارہ‘
سرکار
میں تو اک افسر ہے
ہیبت
بھی ہے چاروں طرف تری
آیا
جب اجل کا ’’ڈی او‘ ‘ تو
رہ
جائے گی ساری دھونس تری
کیا
افسر تیرے اور کلرک
اسٹینو
، پی اے ، سیکرٹری
کیا
چوکی پہرہ چاروں طرف
کیا
آگے پیچھے آرڈر لی
’سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا
جب
لاد چلے گا بنجارہ‘
۴۔ انور مسعود
روز
مرہ معمولات میں پیش آنے والے انتہائی چھوٹے چھوٹے واقعات جن کو بظاہر معمولی سمجھ
کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے ان کی اہمیت انور مسعود کے مشاہدے میں آ کر بڑھ جاتی
ہے اور یہ واقعات نمایاں ہو کر افرادِ معاشرہ کو ان کی اصل صورت دکھاتے ہیں۔مثال
کے طور پر ہمارے معاشرے میں بزرگوں کو ہمیشہ عزت اور احترام حاصل رہا ہے لیکن جدید
دور میں جب اولاد پڑھ لکھ کر اپنے طرزِ زندگی کو پُر آسائش بنا لیتی ہے۔کوٹھی، کار
اور بینک بیلنس کی مالک بننے کے بعد ان کے دلوں سے والدین اور بزرگوں کی عزت و
احترام کا مادہ ختم ہو جاتا ہے۔بوڑھے والدین صرف گھر کے کام کاج اور نواسوں کو
پالنے تک محدود کر دیے جاتے ہیں۔ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ جب دوست احباب گھر
میں آئیں تو والدین کو ان سے نہیں ملنے دیا جاتا بلکہ دور سے ان کا تعارف نوکر کی
حیثیت سے کرایا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے کی قدریں آہستہ آہستہ دولت کی ریل پیل میں
بہتی چلی جا رہی ہیں جن کا اظہار انور مسعود نے کھل کر کیا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل
ہیں :
بھینس
رکھنے کا تکلف ہم سے ہو سکتا نہیں
ہم
نے سوکھے دودھ کا ڈبّا جو ہے رکھا ہوا
گھر
میں رکھیں غیر محرم کو ملازم کس لیے
کام
کرنے کے لیے اَبا جو ہے رکھا ہوا
ذرا
سا سونگھ لینے سے بھی انور
طبیعت
سخت متلانے لگی ہے
مہذب
اس قدر میں ہو گیا ہوں
کہ
دیسی گھی سے بُو آنے لگی ہے
انور
مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں روحِ عصر کی پرچھائیں بہت نمایاں ہیں۔ان کی
مزاحیہ شاعری میں عصری ثقافت کا موازنہ اس بنیادی فکر کے ساتھ کیا جاتا ہے جو
ہماری اسلامی تہذیب سے سرسبزو شاداب ہو۔جب ثقافت کا مذہبی پہلو متاثر ہونے لگتا ہے
اور صدیوں سے رائج آداب و اطوار اپنی پختگی کے باوجود ڈگمگانے لگتے ہیں تو انور
مسعود کی مزاح نگاری میں مرثیہ کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ مرکزی جزوِ ثقافت میں
اخلاقیات بھی شامل ہے اور میل جول کے سبھی دھارے اسی کے تابع ہوتے ہیں۔
جدیدپاکستانی تہذیب میں اسلامی اخلاقیات کی توڑ پھوڑ کا عمل کسی ایک طبقہ کے منحرف
ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اعلیٰ سے ادنیٰ طبقات کی جانب بہنے والی جدیدیت کی
غلیظ مغربی لہریں ہی اسلامی اخلاقیات اور آداب و اطوار کوپاکستانی معاشرے سے نکال
باہر کرنے کا شاخسانہ ہیں جن میں نادانستہ طور پر بہہ کر فکر و فن کے تمام زاویے
ناپختگی کی جانب رواں دواں ہیں۔ انور مسعود ان غلیظ لہروں کا رُخ موڑ کر مرکزی اسلامی
فکر کو فروغ دے کر دوبارہ اپنی مشرقی تہذیب سے رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔معاشرے
میں پھیلی ہوئی نفسا نفسی، خود نمائی،بے فکری،سُستی، کام چوری، رشوت، سفارش،ڈاکہ
زنی، اقربا پروری، ملاوٹ، بدمعاشی، سیاسی ہیرا پھیری وغیرہ پر انور مسعود تڑپ
اُٹھتے ہیں۔جس معاشرتی برائی پر چوٹ کرتے ہیں،اس کی مکمل تصویر نگاہوں کے سامنے لا
کر پہلے تو دیکھنے والے کو اس پر خندہ زن ہونے کا موقع دیتے ہیں لیکن جلد ہی
تماشائی گھبرا کر اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ابتداًمساجد کے
ہمسایہ میں آباد لوگ بڑے خوش قسمت سمجھے جاتے تھے کہ ان کو تمام نمازیں با جماعت
ادا کرنے میں بڑی آسانی رہتی تھی۔ جب سے لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا،ان لوگوں پر ہر
لمحہ امتحان بن کر نازل ہوتا ہے۔ اذان کے علاوہ بھی علما ء و واعظین وقت بے وقت
مسجد کے قریب بسنے والے لوگوں کوستانے کی تگ و دو میں منہمک رہتے ہیں۔ بچوں کے
امتحانات، بیماروں کے آرام،دن بھر کے تھکے ہارے محنت کشوں کے سستانے کا خیال رکھے
بغیر سارا سارا دن مساجد میں فرقہ ورانہ تقاریر اور نعرے بازیاں معمول بن چکا ہے۔
ایسے ہی معمولات کی مصوری انور مسعود کچھ یوں کرتے ہیں :
در
پئے تقریر ہے اک واعظِ گنبد گلو
لاؤڈ
اسپیکر بھی اس کے سامنے موجود ہے
نیند
کا طالب ہے اک بیمار بھی ہمسائے میں
’’کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے‘‘
اخلاقی
اقدار کے بے سروسامانی نے ہمارے معاشرے میں ملاوٹ، رشوت، سفارش اور جھوٹ جیسی
لعنتوں کو عام کر دیا ہے۔ قوموں کو تباہ کرنے والی ان برائیوں پراس وقت سب نے اپنے
ہونٹ سی لیے ہیں۔ انور مسعود اِن برائیوں کا قلع قمع کرنے کی بھرپور کوشش کرتے
ہیں۔ افرادِ معاشرہ کی توجہ کے لیے اُن سے مزاح کے پردے میں خطاب کرتے ہیں۔
دودھ
کا استعمال بچے، بوڑھے اور جوان سب کرتے ہیں اس لیے یہ جنس خالص ملنی چاہیے تاکہ
کسی کی صحت کو اس سے فائدے کے برعکس نقصان نہ پہنچ جائے۔ بچے اور بوڑھے کم قوتِ
مدافعت کی وجہ سے ملاوٹ شدہ اشیا کے استعمال سے فوراً بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہسپتالوں
پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں بچوں اور بوڑھوں کی کثرت ملاوٹ کے عام ہونے کا راز فاش
کرتی ہے۔ محکمہ خوراک کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ان کے فوڈ
انسپکٹر دیانت داری اور باقاعدگی سے اشیائے ضرورت پر نظر رکھیں تو خالص اجناس نہ
ملنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جس ملک میں دودھ کی دس دس قیمتیں متعین ہوں اور ایک سیر
دودھ کی قیمت سے ایک لیٹر مِنرل واٹر کی قیمت زیادہ ہو،وہاں ماضی کی یادیں یوں
ستاتی ہیں :
آؤ
اس کے اصل گورے رنگ سے
اب
تصوّر میں ملاقاتیں کریں
آؤ
پھر ماضی کی یادیں چھیڑ دیں
آؤ
خالص دودھ کی باتیں کریں
دودھ
سے ایک قدم آگے ’’چائے کی پتی‘‘ کی طرف آئیں تو یہاں صورت حال بد سے بدتر دکھائی
دیتی ہے۔ انسانی صحت سے کھیلنے والے تاجر مضرِ صحت کیمیائی عناصر کی ملاوٹ سے خود
نفع کماتے ہیں اور گاہکوں کو ہسپتالوں کی نظر کرتے ہوئے ذرا شرم نہیں کرتے:
کام
کرنا ہو تو پھر کیجے ذرا ترکیب سے
کچھ
نہ کچھ ہر بات میں درکار ہے ذوقِ ہنر
صرف
تھوڑا سا ملاوٹ کا قرینہ چاہیئے
چائے
کی پتی سے کٹ سکتا ہے بندے کا جگر
گندم
ہمارے ملک کی اپنی پیداوار ہے۔ زیادہ منافع کے لالچ میں بڑے بڑے تاجر اور سرمایہ
دار چھوٹے کسانوں سے گندم خرید کر مہنگے داموں دوسرے ممالک کو اسمگل کر دیتے ہیں۔
گندم کا زیادہ حصہ باہر چلے جانے سے ملک میں اس کی قلت پیدا ہو جاتی ہے جس سے آٹے
کا بحران جنم لیتا ہے۔ اس موقع پر بھی سرمایہ دار اور منافع خور طبقہ ملاوٹ شدہ
آٹا بازاروں میں لا کر عوام کی جانوں پر ظلم کرتا ہے۔ کوئی شخص اپنے بچوں کو بھوکا
نہیں دیکھ سکتااورآج کل آٹے کی قلت کی وجہ سے لوگ مجبوراً ملاوٹ والا ناقص آٹا
مہنگے داموں خریدتے ہیں :
یقیں
کرو کہ یہ آٹا بہت ہی عمدہ ہے
سنو
یہ تحفۂ نادر سنبھل کے لے جانا
اب
اس سے بڑھ کے بھلا اور کیا تسلی دوں
اگر
مروڑ نہ اُٹھے بدل کے لے جانا
پاکستان
میں شروع ہی سے طاقت کا سرچشمہ گنے چنے خاندان رہے ہیں۔ حکومت ہو یا دولت، یہی
خاندان عوام کو بے وقوف بنا کر اِن پر ہمیشہ سے مسلط رہے ہیں۔ نسل در نسل حکمرانی
کرنے والے یہ شاہی خاندان قربانیاں دینے والے افراد کو اُوپر اُٹھنے کا کبھی موقع
نہیں دیتے اور ذہین لوگ ساری زندگی ترقی کے خواب دیکھتے موت کے منہ میں جا گرتے
ہیں۔ پاکستان کی بد حالی کے ذمہ دارسیاستدان لوٹ مار اور عوام کے نام پر حاصل کی
جانے والی غیر ملکی امدادسے اپنی جائیدادوں اور بینک بیلنس میں تو بہت اضافہ کر
لیتے ہیں لیکن مفلس عوام کی حالت نہیں بدلتی۔ باپ کی جگہ بیٹا علاقے کی سیاست پر
قابض ہو جاتا ہے اور کسی کا بیٹا نہ ہو تو بیٹی بھی عوام پرمسلط ہونے سے گریز نہیں
کرتی:
افسوس
کہ کچھ اس کے سوا ہم نہیں سمجھے
دیکھے
ہیں علاقے کی سیاست کے جو تیور
’جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں ‘
والد
کی جگہ لینے کو آ جاتی ہے دختر
الیکشن
میں حصہ لیتے وقت امیدوار عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں جن کی تکمیل کسی
صورت نہیں ہو سکتی۔ عوام اُن کے نعروں میں پھنس کر انھیں ووٹ دے دیتے ہیں۔ ہمارے
سیاستدانوں کا ایک وعدہ انور مسعود اس طرح بیان کرتے ہیں :
مجھے
گر منتخب کر لو گے بھائی
پنپنے
کی نہیں کوئی برائی
مجھے
کہنا کہ ناقص ہے صفائی
گٹّر
سے بھی اگر خوشبو نہ آئی
پاکستان
میں انتخابات کھیل اور مذاق بن چکے ہیں۔ ان میں حصہ لینے والوں پر کسی طرح کی
پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ہر بدمعاش، قاتل، ڈاکو، لٹیرا،غاصب اور شاطر شخص حکومت
میں شامل ہونے پر تیار ہوتا ہے۔ انتخابات میں سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ
دینے کے نام پر لاکھوں روپے فیس وصول کرتی ہیں جسے سیاسی رشوت کے علاوہ کوئی نام
نہیں دیا جا سکتا۔ جو لوگ سیاسی جماعتوں کو یہ رشوت نہیں دے پاتے،وہ اپنے طور پر
آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ انور مسعودکا آزاد
امیدوار پر ظریفانہ تبصرہ دیکھیے:
شاعرانہ
اور ظریفانہ ہو گر ذوقِ نظر
زندگی
میں جا بجا دلچسپ تشبیہیں بھی ہیں
ریل
گاڑی اور الیکشن میں ہے اک شے مشترک
لوگ
بے ٹکٹے کئی اِس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں
اردو
شاعری میں ماحولیات کو باقاعدہ طور پر کبھی موضوع نہیں بنایا گیا۔ اوّل تو ماحول
کی اصلاح کا احساس ہی مشرق کے بجائے پہلے مغرب میں بیدار ہوا۔تیسری دنیا کے ممالک
ابھی تک افلاس کے تاریک سائیوں سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکے اور روٹی،کپڑے کے
چکر نے ان کو دوسرے مسائل کی جانب سوچنے کا موقع نہیں دیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے
ترقی یافتہ ممالک اور اقوامِ متحدہ کے دباؤ کی وجہ سے تمام دنیا میں ماحول پر توجہ
دی جانے لگی اور حکومتوں نے اس کے لیے ’وزارتِ ماحولیات‘ کا محکمہ قائم کیا۔ ہمارے
ملک میں لوگوں کی اکثریت کا تعلق پسماندہ طبقوں سے ہے اور دیہاتوں میں روزگار کے
مواقع نہ ہونے کے باعث خاندانوں کے خاندان گذشتہ چند عشروں میں نقل مکانی کر کے
شہروں میں آ بسے ہیں۔ اس سے شہروں میں دوسرے مسائل کے ساتھ ماحولیات میں بہت زیادہ
بگاڑ پیدا ہوا ہے۔ ذرائع آمدورفت میں غیر معمولی اضافہ نے دھوئیں اور شور کو جنم
دیا۔ آبادیاں بڑھنے سے گندگی اور بیماریاں پھیلیں۔ اس موضوع کو ہمارے ہاں شاعری تو
دور کی بات ہے، نثر میں بھی بے توقیر و بے وقعت سمجھا گیا اور کسی ادیب و شاعر نے
اس کی جانب رغبت نہ دکھائی۔ انور مسعود نے ’’میلی میلی دھوپ‘‘ کے نام سے، پہلی
مرتبہ اس خاص موضوع پر پورا مجموعۂ کلام سامنے لایا ہے۔انور مسعود کی شخصیت و فن
پر تفصیل کے لیے میرا مقالہ برائے ایم۔فل ’’انور مسعود کی شعری خدمات:تحقیقی و
تنقیدی مطالعہ‘‘ ملاحظہ کریں۔
۵۔ نیاز سواتی
نیاز
کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں طنز کا عنصر اس وقت آب دار ہو جاتا جب وہ معاشرے میں
مغربی تہذیب کو پھلتے پھولتے دیکھتے ہیں۔ معاشرتی و اخلاقی برائیوں پر چُپ نہیں
رہتے اور نظامِ سلطنت میں بھی دخل اندازی کر جاتے ہیں۔ ان کے موضوعات ایک مزدور کے
مسائل سے شروع ہو کر عالمی سیاست کے نام نہاد ٹھیکیداروں تک پھیلے ہوئے ہیں۔
موضوعات کی وسعت کے چند نمونے دیکھیے:
باپ
کے دشمن سے لیتے ہیں بہادر انتقام
آدمی
کو دشمنِ شیطان ہو نا چاہیے
میرا
بیٹا بات سچی کوئی بھی کرتا نہیں
میرے
بیٹے کو سیاستدان ہونا چاہیے
غلے
کی فصل کرتے ہیں پیدا بہت ہی کم
بچوں
کی فصل خوب اُگاتے ہیں ہم وطن
ہلدی
میں، ڈالڈے میں، مسالے میں، چائے میں
جو
چیز بھی ملے وہ ملاتے ہیں ہم وطن
تم
غلط سمجھے ہو چپڑاسی اسے گھر لے گیا
وہ
جو تھا دفتر کا ہیٹر، اس کو افسر لے گیا
جس
نے مکھن کم لگایا باس کو، وہ رہ گیا
وہ
ترقی پا گیا جو اک کنستر لے گیا
نیاز
سواتی تحریف کے ماہر تھے اور انھوں نے کئی ایسی غزلیات کی پیروڈیاں بنائیں جنھیں
نیاز کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی۔جب کسی شاعر کی غزل نیاز کے الفاظ میں ڈھلتی ہے تو
غزل کا شاعر خود بھی نیاز پر ناز کرتا ہو گا کہ اس کے ذریعے وہ بھی امر ہو گیا۔
ایسی ہی صرف دو مثالیں پیش ہیں جن میں تحریف نگاری کے بہترین نمونے موجود ہیں :
باس
کے آ گے جھکا تو بھی نہیں،میں بھی نہیں
اس
لیے پھولا پھلا تو بھی نہیں،میں بھی نہیں
آؤ
ہم دھندا کریں دونوں، سیاست کا نیاز !
گاؤں
میں لکھا پڑھا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مجھے
پیار ہے کسی اور سے،مجھے چاہتا کوئی اور ہے
میں
ہوں گھورتا کسی اور کو،مجھے گھورتا کوئی اور ہے
مجھے
دے رہا ہے جو تو دوا، مجھے اس سے کیسے ملے شفا
کہ
مرا مرض کوئی اور ہے، کہ مری دوا کوئی اور ہے
ان
کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر انور مسعود تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگوں کی باتیں ان کے
ہونٹوں سے لے کر ان کے کانوں کو واپس کر دیتا ہے۔ عوامی تبصرے، عوامی زبان میں اس
کے شعروں میں ڈھلتے جاتے ہیں۔ اس کی غزل سماج پر ایک Running
Commentaryمحسوس
ہوتی ہے جو ناصحانہ پن، استفسار، خود کلامی اور مشورے کا سا انداز لیے ہوئے ہے۔
سماجی تنقید اور اجتماعی ہجو نگاری (Social
Satire) کے
لیے اس نے ایسا دھیما اور محتاط لہجہ اختیار کیا ہے جو نا شائستگی اور دل آزاری سے
کوسوں دور ہے۔ اسی لیے وہ بالعموم حدیثِ دیگراں کو حدیثِ خویش بنا کر پیش کرتا
ہے۔۔۔‘‘ [۲۳]
۶۔ بشیر احمد
ماہ
و انجم کو شکارR.doctxt کے پاس اوروں کی فائلیں بھی ہیں، جن کا آپ
نے بھیجنے کا وعدہ کیا تھا، مثلاً غضنفر کا ’مانجھی‘ بھیچونچال
طنزیہ
و مزاحیہ شاعری کے صفِ اوّل کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ غربت اور پیٹ کے دھندوں کے
ساتھ مہنگائی پر متواتر اشعار ان کے مجموعہ کلام ’’ منقار‘‘ میں ملتے ہیں۔مثلاً:
چونچال
خوب گزریں گے دن اپنے جیل میں
روٹی
پکی پکائی ملے گی تنور کی
ہم
ہیں کہ ناز اُٹھاتے ہیں مسری کی دال کے
وہ
ہیں کہ روز کھاتے ہیں انڈے ابال کے
گوشت
کھانے کی تمنا کیا بھلا کوئی کرے
دال
بھی ملتی نہیں ہے اب تو آسانی کے ساتھ
کیا
کروں اب کس طرح اپنی کمر سیدھی کروں
پُشت
پر چونچال بارِ سنگِ اخراجات ہے
مرے
گھر میں کمی کس چیز کی ہے
فقط
آٹا نہیں تیری دعا سے
ایک
وہ ہر بات میں ہے خود کفیل
ایک
ہم ہر لحظہ محتاج مدد
ہے
کہاں چونچال آسائش نصیب
آ
رہا ہے وقت اب تو بد سے بد
شیخ
وزاہد ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا سب سے اہم کردار ہے۔چونچال اس کی ذات پر ہر
پہلو سے حملہ آور ہو کر اس پر پھبتیاں کستے ہیں۔ یہاں ان کا لہجہ کبھی ناصحانہ ہے
تو کبھی جنگجویانہ،طعنہ زنی کرتے ہیں اور کبھی شیخ کے ساتھ ہنسی مذاق کرنے لگتے
ہیں :
رواں
تھا کاروبارِ انجمن کس حسن وخوبی سے
نہیں
تھا مولوی کوئی شریکِ انجمن جب تک
شیخ
بیرونی مدد لے کر بہت مسرور ہیں
اہل
غیرت کی نظر میں بھیک آخر بھیک ہے
سخت
خطرے میں ہے حلقومِ مسلمانی مرا
ہاتھ
میں ان کے برابر خنجر تکفیر ہے
وہ
ایسے ذکر کرتے ہیں خدا کا
کہ
جیسے آئے ہیں مل کر خدا سے
جبین
شیخ شب و روز سجدہ ریز رہی
پر
اس کے سجدوں میں اک سجدہ بے ریا نہ ملا
بچوں
کی تربیت کا نہیں کچھ انھیں شعور
کچھ
بے تمیز شیخ کے بچوں کی ماں بھی ہے
رات
محفل میں اچانک کھلبلی سی مچ گئی
کوئی
چوہا جا گھسا تھا شیخ کی شلوار میں
تری
جبین پہ دھبہ نہ جانے کیسا ہے
نشانِ
داد ہے یا داغِ پارسائی ہے
کچھ
ملاّؤں نے اسلام کے پسِ پردہ مسلمانوں کو تفرقے میں ڈالا اور ملّت میں مذہب کے نام
پر پھوٹ ڈال کر اپنے پیٹ کے لیے حلوے مانڈے اور مرغِ مسلّم کا بندوبست کیا۔ان
واعظین نے کبھی نام نہاد مذہبی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک میں نفاذِ اسلام کا
نعرہ بلند کیا اور کہیں سُنی،وہابی،شیعہ کی تفریق ڈال کر عوام کے جذبات کو مجروح
کیا۔ چونچال ان سازشوں کا تذکرہ لطیف انداز میں یوں کرتے ہیں :
نظامِ
مصطفیٰ نافذ ہے اعلانات کی حد تک
نکل
کر بات منہ سے رہ گئی ہے بات کی حد تک
ہو
گئی ہے اب نظامِ مصطفی کی ابتدا
اللہ
اللہ کر کے تم شغلِ مسلمانی کرو
وہ
کافروں کا نگر ہے یہ مومنوں کا وطن
وہاں
ہے امن یہاں رات دن لڑائی ہے
قطعہ
عالمِ
اسلام میں یہ کیا خرابی ہو گئی
یہ
ہوئی سُنی تو وہ مسجد وہابی ہو گئی
ملّتِ
توحید اور تفریق اللہ رے ستم
کفر
کے فتوے لگانا ان کی ہابی ہو گئی
چونچال
مرحوم نے فیملی پلاننگ اور کثرتِ اولاد کے موضوع پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ یوں
محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اپنی اولاد بھی کافی زیادہ تھی جس کی وجہ سے مسائل کے گرداب
سے ساری زندگی نہ نکل سکے:
فوزیہ
ہوتی رہی فردوسیہ ہوتی رہی
میرے
ہاں ہر سال پیدا لونڈیا ہوتی رہی
کثرتِ
اولاد کے زنداں میں دم گھٹتا رہا
زندگی
ہماری یارو سنکھیا ہوتی رہی
بہت
بچوں کی کثرت ہو رہی ہے
ولادت
پر ولادت ہو رہی ہے
اُدھر
چندے پہ چندہ ہو رہا ہے
اِدھر
روٹی کی قلت ہو رہی ہے
قطعہ
کنبے
کے افراد اس رفتار سے بڑھتے رہے
گھر
کا گھر افراد ہی افراد ہو کر رہ گیا
سلسلہ
پیدائشِ اطفال کا اتنا بڑھا
میں
فنا فی الکثرتِ اولاد ہو کر رہ گیا
قطعہ
نیا
ماڈل اگر ہر سال آتا ہے تو پھر کیا ہے
ہماری
کوشش تولید آخر رائیگاں کیوں ہو
اگر
اولاد سازی کے سواکچھ اور ہوں دھندے
تو
اپنی اہلیہ چونچال دس بچوں کی ماں کیوں ہو
چونچال
مہنگائی، رشوت،ڈاکا زنی،قتل و غارت، ملاوٹ، چور بازاری،بے حیائی، اخلاقی زبوں حالی
جیسی درجنوں برائیوں پر طنز کر کے معاشرتی ناسوروں سے غلیظ مواد نکال باہر کرتے
ہیں :
چور
بازاری، گرانی، قتل و غارت، لوٹ مار
کیا
کمی ہے اپنے ہاں ہر چیز کی بہتات ہے
گرانی
، چور بازاری ، سمگلنگ
یہاں
کیا کچھ نہیں فضل خدا سے
چائے
چھلکوں کی بناؤ دودھ کو پانی کرو
ہے
گرانی کا سماں سامان ارزانی کرو
اللہ
کا ڈر، عدل و وفا، شرم و حیا ضبط
اس
دور میں فرمائیے کیا کیا نہ ہوا ضبط
اس
ملک کا انجام ہو کیا جانے کہ جس میں
ہے
خیر سے ہر چیز برائی کے سوا ضبط
یوں
تو چمن میں ہو گا کہیں نخلِ اتحاد
کیا
اس درخت میں کوئی ٹہنی ہری بھی ہے
صفِ
اول کے تقریباً تمام طنزیہ و مزاحیہ شعرا نے عالمی سیاست کی منافقت پر اپنے اپنے
انداز میں طبع آزمائی کی ہے۔ اس معاملے میں چونچال بھی کسی سے پیچھے نہیں اور
عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی چالوں پر عقابی نگاہ رکھتے ہوئے ان پر اشعار کی صورت
یوں جھپٹتے ہیں :
تذکرے
ہیں قریہ قریہ اس کے ظلم و جور کے
وہ
ستم پرور مگر نا واقفِ حالات ہے
مجھے
حق ہے کہ پوچھوں میں شہِ کابل سے محشر میں
کہ
یو این او میں جا کر تو نے تائیدِ عدو کیوں کی
پاکستان
میں آمریت کے ادوار کے ساتھ جمہوریت میں بھی زبانِ حق اور قلمِ بے باک پر پہرے
بٹھائے گئے۔ نام نہاد غاصب حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفاد کے خلاف کبھی کوئی آواز نہ
اٹھنے دی اور ہر صدائے حریت کا انتہائی بے دردی کے ساتھ گلا گھونٹ دیا۔ایسے ہی
جابرانہ موسموں میں چلنے والی بے رحم آندھیوں کا گلہ چونچال نے قدم قدم پر کیا ہے:
حالات
اعتدال پر کب آئیں دیکھئے
ہما
ہوا قلم ہے تو خائف زباں بھی ہے
مختلف
پا بندیوں میں ہیں یہ سب جکڑے ہوئے
میرا
دل، میری زباں، میرا قلم، میری نظر
کی
جو بھی بات خیر سے وہ کی عناد کی
سچ
پوچھئے تو لیڈری جڑ ہے فساد کی
وہاں
چونچال کس برتے پہ منہ ماریں سیاست میں
جہاں
روٹی نہیں ملتی گزر اوقات کی حد تک
ان
کے ہاں عشق اور اس کے لوازمات پر بہت سے اشعار ملتے ہیں جن میں محبوب،عاشق،حسن،
دل،چشم،وصل،جدائی وغیرہ عام ہیں :
حُسن
کے دفتر میں چند اک منشیوں کی مانگ ہے
عشق
کو بابو بنا دینے کا موسم آ گیا
حسینوں
کی ہر اک شے یوں تو حشر آثار ہوتی ہے
مگر
چشمِ سیہ ان سب کی نمبردار ہوتی ہے
ناز
و ادا و غمزہ و چشمِ فسوں طراز
دل
کا مقابلہ ہے تری آرمی کے ساتھ
دل
لگانا کیا ہے اک تعمیر جوئے شیر ہے
عشق
کہتے ہیں جسے وہ سخت ٹیڑھی کھیر ہے
میں
بھی بن سکتا ہوں دیوانہ گریبان پھاڑ کر
عشق
کیا مجنوں کے باوا کی کوئی جاگیر ہے
قیام
پاکستان کے بعدمسلم معاشرے پر مغربی تہذیب و ثقافت کے اثرات بڑھتے بڑھتے اس حد تک
پہنچ گئے کہ لوگوں کی اکثریت اپنی اقدار کو فرسودہ خیال کرنے لگی اور اندھا دھند
فرنگی صورت میں ملبوس ہو گئی۔لباس، آدابِ معاشرت،طرز کلام، اندازِ طعام وغیرہ کے
ساتھ ہر طور طریقہ مغربی اطوار کی گواہی دینے لگا۔ اس تبدیلی پر چونچال یوں گویا
ہوئے:
آ
گیا مونچھیں منڈا دینے کا موسم آ گیا
مرد
کو عورت بنا دینے کا موسم آ گیا
گئے
وہ دن کہ بیوی زینتِ آغوشِ شوہر تھی
نمائش
حسن کی اب تو سرِ بازار ہوتی ہے
اِدھر
داڑھی ہوئی رخصت ادھر مونچھوں نے کی ہجرت
خدا
کا نام باقی رہ گیا ہے روئے روشن پر
چونچال
کی شاعری میں مذکورہ بالا موضوعات کے علاوہ کئی متفرق اور روز مرہ واقعات پر
تنقیدی اشعار نظر آتے ہیں جن سے ان کی وسعتِ مشاہدہ کے ساتھ قادر الکلامی کا اظہار
ہوتا ہے۔ ان کے اشعار میں انگریزی الفاظ بطور قافیہ بھی ملتے ہیں اور کچھ غزلیات
میں تو کئی اشعار میں مسلسل انگریزی زبان کے قافیے موجود ہیں۔
۷۔ ضیا ء الحق
قاسمی
ان
کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری معاشرے میں پائے جانے والی بے اعتدالیوں سے جنم لیتی ہے
اور روزمرہ واقعات و معاملات ان کی ظرافت کا شکار بنتے ہیں۔نظم، غزل اور قطعہ میں
ان کی ظرافت کے گلہائے رنگا رنگ ملتے ہیں۔ تحریف کے فن میں کمال رکھتے تھے اور کئی
معروف و مقبول غزلیات اور نظموں کو تحریف کے پیکر میں ڈھال کر نئے معانی دیے۔
پروین شاکر کی غزل ’’کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی‘‘ ضیاء کی مزاحیہ شاعری
کے قالب میں ڈھلنے کے بعد اپنی بہار کچھ یوں دکھاتی ہے:
کوچۂ
یار میں، میں نے جو جبیں سائی کی
اس
کے ابا نے مری خوب پذیرائی کی
میں
تو سمجھا تھا کہ وہ شخص مسیحا ہو گا
اس
نے پر صرف مری تارا مسیحائی کی
اس
کے گھر پر ہی رقیبوں سے ملاقات ہوئی
کیا
سناؤں میں کہانی تجھے پسپائی کی
میرے
تایا سے وہ ہیں عمر میں دس سال بڑی
گھر
کے ہر فرد پہ دہشت ہے مری تائی کی
سر
کھجاتے رہے ناخن تدبیر سے ہم
پھر
ضرورت نہ رہی ہم کو کسی نائی کی
وہ
بھری بزم میں کہتی ہے مجھے انکل جی
ڈپلومیسی
ہے یہ کیسی مری ہمسائی کی
کچھ
تو بدنام ہی تھے عشق بتاں میں ہم لوگ
کچھ
رقیبوں نے بھی حاشیہ آرائی کی
رات
حجرے میں علاقے کی پولس گھس آئی
’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘
میں
جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلا
بات
نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی
درج
بالا غزل میں اردو کے ساتھ پنجابی اور انگریزی الفاظ کا استعمال نئے معانی کو جنم
دے کر مزاح کو تحریک دیتا ہے۔ غزل میں قافیہ آرائی کی جدتیں بھی اس کے ابلاغ کا ایک
عمدہ وسیلہ ہیں۔پذیرائی کے ساتھ جبیں سائی، پسپائی، تائی، نائی،ہمسائی، حاشیہ
آرائی او ر بینائی،مزاح کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔
زندگی
کی تلخ حقیقتوں کا بڑے ہلکے پھلکے الفاظ میں ایسے بیان کر دینا کہ تہ داری بھی
برقرار رہے،ضیاء ہی کا فنی کمال تھا۔ ایک قطعہ میں اس مفہوم کو بیان کرتے ہیں کہ
وطنِ عزیز میں امیر جب چاہیں انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اُٹھا سکتے ہیں۔ ان
کے لیے کسی قسم کی کوئی پابندی رکاوٹ نہیں بنتی لیکن ان کے برعکس مفلس طبقہ ایسی
غذاؤں کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسے تو مرغ بھی اس وقت نصیب ہوتا ہے جب مُرغ
بیمار ہو جائے یا پھر وہ خود بیمار ہو جائے۔ بیماری کی حالت میں مریضوں کو مرغ کی
یخنی تجویز کی جاتی ہے اور اس یخنی نکلے ہوئے مرغ کا گوشت غریب ومفلس کے گھرانے کو
نصیب ہوتا ہے۔قطعہ ملاحظہ ہو:
جب
بھی چاہیں مرغ کھا لیتے ہیں دولت مند لوگ
دن
کی پابندی نہیں منگل ہو یا اتوار ہو
ہاں
مگر مفلس کو کب ہوتا ہے یہ کھانا نصیب
مرغ
ہو بیمار یا وہ خود کبھی بیمار ہو
ضیاء
الحق قاسمی کی اکثر نظمیں واقعہ نگاری کی حامل ہیں۔ ویسے بھی نظم کسی ایک خیال یا
پسِ منظر کی عکاس ہوتی ہے اور اس کے تمام اشعار ایک ہی موضوع پر مشتمل ہوتے ہیں۔
ان کی ایسی ہی ایک نظم ’’میرا ٹیلی فون‘‘ دیکھیے جوپاکستان میں ابتداً عزت و تکریم
کی علامت سمجھا جاتا تھا اور لوگ ٹیلی فون رکھنے والوں سے مراسم بڑھانے لگتے تھے
تاکہ بوقتِ ضرورت اس سہولت سے فائدہ اُٹھا سکیں۔ محلے بھر کے افراد اپنے عزیزوں کو
رابطے کے لیے اس شخص کا فون نمبر دیتے تھے جو اس سہولت کو اپنے گھر رکھتا تھا۔ اُن
دنوں ٹیلی فون لگوانا بھی ایک مسئلہ تھا اور اس کے لیے خاصی تگ و دو کی ضرورت ہوتی
تھی:
آج
تک ہوتا رہا ہے میرے ارمانوں کا خون
دس
برس کے بعد آخر مل گیا ہے ٹیلی فون
لے
کے میں ڈیمانڈ نوٹس ہکا بکا رہ گیا
اور
مری آنکھوں سے خوشیوں کا سمندر بہہ گیا
ڈاکئے
نے دی مبارک کچھ عجب انداز سے
بحث
کیا کرتا میں اس سرکاری حیلہ باز سے
میرے
گھر اہلِ محلہ رات تک آتے رہے
اور
مبارک بادیوں کے پھول برساتے رہے
میری
بیوی میرے بچے سب کے سب حیران تھے
منہ
کھلے ہی رہ گئے تھے جیسے روشن دان تھے
اک
پڑوسی کو تو لگتا تھا کہ سکتہ ہو گیا
میں
محلے بھر کی نظروں میں بھی یکتا ہو گیا
گھر
میں لانا فون کا لانا ہے جوئے شیر کا
یہ
کرم مجھ پر ہوا ہے کا تبِ تقدیر کا
دل
کے مریض تھے اور طنز و مزاح کو طبیعت کے بحال رکھنے کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ اسی مرض
کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا جس سے گلشنِ ظرافت میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا کیونکہ
ضیاء ایسی تقاریب کا کوئی نہ کوئی موقع نکال کر ظرافت کی پھلجھڑیاں بکھیرا کرتے
تھے۔
۸۔ ڈاکٹر انعام
الحق جاوید
خوش
کلامیاں،خوش بیانیاں، کوئے ظرافت، سو بٹا سو، منظوم قہقہے، ساتویں سمت، ککر تھلے
دھپ،کشتیِ زعفران، انتخاب در انتخاب، ہسدے وسدے،لایعنی،گلہائے تبسم،دیوانِ خاص
وغیرہ کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید پر مبنی کئی کتب کے خالق و مرتب ہیں اور ان کتب
پر اعلیٰ اعزازات بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی شاعری کے اشجار پر لگنے والے گوہر
پارے ہر بار اپنی الگ بہار دکھا کر دکھوں کو زیر بار کر کے مسکراہٹیں نثار کرتے
چلے جاتے ہیں اور قاری درد ویاس کے لباس سے نکل کر قہقہوں کے ہنگامِ کارزار میں
جگر فگار ہوتا ہے۔ انعام الحق جاوید اپنے قطعات کے ابتدائی تین مصرعوں میں اخلاقی
و معاشرتی بُرائیوں کے ساتھ اس طرح اٹکھیلیاں کرتے ہیں، جیسے ان سے تعلق استوار کر
رہے ہوں لیکن آخری مصرعے میں اچانک شمشیر بکف ہو کر ظرافت کے ایک ہی وار سے انھیں
اس طرح شکار کر تے ہیں کہ تڑپنے کا موقع تک فراہم نہیں کرتے۔ان کے شکاروں میں
مولوی، بیگم، پولیس، سیلزمین، ڈاکٹر، سیاستدان، مہمان، استاد، طلبہ، عاشق و معشوق،
خوشامد،رشوت، سفارش، ڈاکے، اغوا وغیرہ اپنی لاشوں پر خود ہی نوحہ گر ہیں۔
پاکستان
اور بیرونِ ملک منعقد ہونے والے طنزیہ و مزاحیہ مشاعروں کو اس وقت جو جمال اور
کمال حاصل ہے اس کا سب سے بڑا سبب ان مشاعروں کی میزبانی کا ڈاکٹر انعام الحق
جاوید کے سپرد ہونا ہے۔انھوں نے ظریفانہ شاعری کو حالتِ اِ ضمحلال سے نکال کر عروج
و دوام بخشا اور اس کو عامۃ الناس کے لیے قابل قبول بنایا۔
ہماری
طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں ابتدا کی طرح اس وقت بھی کئی حوالوں سے کچھ شعرا چند
موضوعات کو پھکڑ پن اور ابتذال کی ہوا دے کر پامال کر رہے ہیں اور وہ بھی چند
لمحات کی خاطر۔ان موضوعات پر شریفانہ انداز اپنا کر انھیں وقعت دی جا سکتی ہے۔
تقلیدِ کلامِ جہلا کے برعکس انعام کے ہاں یہ کام مثبت فکر کے ساتھ ملتا ہے اور
عورت کی تکریم بہرصورت قائم رہتی ہے۔انعام الحق جاوید کی طبعِ رواں نے گلدستۂ معنی
کو نئے ڈھنگ سے باندھ کر ظرافت کے چمنِ دل بہار میں ان کی جلوہ نمائی کی ہے۔ اردو،
پنجابی،فارسی اور انگریزی زبانوں کے حسین امتزاج سے اک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے
آشکار کیا ہے۔چاروں زبانوں کا امتزاج لیے سحر بیانیِ انعام کے چند کرشمے ملاحظہ کیجیے:
لگتا
ہی نہیں ہے مرا تکّا مرے مولا
دس
سال سے بیکار ہوں اُکا مرے مولا
تو
چاہے تو لگ سکتا ہوں ڈائریکٹ منسٹر
ہر
چند کہ اَن پڑھ ہوں سُکّا مرے مولا
دہر
میں کچھ اس طرح حیرانیاں پیدا کرو
سرو
کے پودے پہ بھی ’’خرمانیاں ‘‘ پیدا کرو
یا
تو پھر پکڑو نہ بے لائسنس موٹر سائیکل
یا
’’پروسیجر‘‘ میں کچھ آسانیاں پیدا کرو
کچھ
تو شرح خواندگی میں بھی اضافہ ہو سکے
بال
بچوں کی جگہ استانیاں پیدا کرو
جانِ
من! سنجیدگی اچھی نہیں
ہر کام میں
کچھ
طبیعت میں ’’محمد خانیاں ‘‘ پیدا
کرو
ایک
ایسا واقعہ جس سے ہمارا واسطہ روزانہ ہی پڑتا ہے،بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن شعر
کے قالب میں ڈھلنے کے بعد طنز سے لبریز اس کی نشتریت تو دیکھیے:
دیتا
کبھی کسی کو بھی چکر نہیں ہوں میں
ویسے
بھی آج کل کہیں نوکر نہیں ہوں میں
دروازہ
کھٹکھٹائے جا رہے ہو کیوں
اک
بار کہہ دیا ہے کہ گھر پر نہیں ہوں میں
مہمان
باعثِ رحمت ہوتا ہے لیکن ہماری طنزیہ و مزاحیہ شاعری اس مہنگائی کے دور میں میزبان
کو مہمان کا متحمل نہیں سمجھتی۔اس حوالے سے بہت سے شعرا نے طبع آزمائی کی ہے۔ڈاکٹر
انعام الحق جاوید کا انداز بیاں ملاحظہ ہو:
سفر
کرتے نہیں ہر گز مگر سستائے جاتے ہیں
اگاتے
کچھ نہیں ہیں اور ڈٹ کر کھائے جاتے ہیں
ہمارے
گھر میں مولا جانتا ہے کچھ نہیں باقی
مگر
مہمان پھر بھی منہ اُٹھائے آئے جاتے ہیں
ڈونگے
کی طرف ہاتھ بڑھاتے نہیں دیکھا
اور
مرغ پلاؤ کو اڑاتے نہیں دیکھا
جس
شوق سے کل لنچ کی دے ڈالی ہے دعوت
لگتا
ہے کہ تم نے اسے کھاتے نہیں دیکھا
آخر
میں صرف ایک ہمہ پہلو نمکین غزل پیش ہے جس میں رشوت،مکر و فریب،پولیس اور بیوی
وغیرہ کو ہدفِ مزاح بنایا گیا ہے:
جس
شخص کی اوپر کی کمائی نہیں ہوتی
سوسائٹی
اس کی کبھی ’’ہائی‘‘ نہیں ہوتی
کرتی
ہے اسی روز وہ شاپنگ کا تقاضا
جس
روز مری جیب میں پائی نہیں ہوتی
پولیس
کرا لیتی ہے ہر چیز برآمد
اس
سے بھی کہ جس نے یہ چُرائی نہیں ہوتی
مکر
اور دغا عام ہے، پر اس کے علاوہ
اس
شہر میں کوئی بھی بُرائی نہیں ہوتی
تب
تک وہ بھری بزم میں لگتا ہے معزز
جب
تک کہ غزل اُس نے سنائی نہیں ہوتی
۹۔ سرفراز شاہد
ان
کا شمار پاکستان کے اہم مزاح گو شعرا میں ہوتا ہے۔سرفراز شاہد کی مزاحیہ شاعری میں
بیگم، عاشق، محبوبہ،مولانا، مہمان، مہنگائی،فیشن،اقربا پروری، دھونس، دھاندلی،
استحصال وغیرہ کو بطور خاص طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کہیں کہیں تو ان میں
سے کئی صورتیں ایک ہی قطعے میں اکٹھی مل جاتی ہیں۔مثال کے طور پر بیوی، مہمان اور
مہنگائی کا اتصال دیکھیے:
بیوی
مری جن بھوت سے ڈرتی نہیں لیکن
مہمان
کا ہوّا اسے اچھا نہیں لگتا
مہنگائی
کے اس دور میں دیوار پہ گھر کی
بیٹھا
ہوا کوّا اسے اچھا نہیں لگتا
مہمان
کی آمد اگر کچھ وقت کے لیے ہو تو رحمت ہوتی ہے لیکن مہمان،مستقل مہمان بن بیٹھے تو
صورت وہی ہوتی ہے جس کے تذکرے سرفراز کی شاعری میں بکھرے پڑے ہیں :
ہے
میزبانی کا یہ تقاضا کہ آئے مہماں تو مسکرا دو
مگر
طبیعت یہ چاہتی ہے گلے ملو اور گلا دبا دو
عورت
کا کوئی بھی روپ ہو،سرفراز اُس پر طنز کا وار کرنے سے نہیں چوکتے۔ایسے ہی چند
کرداروں پر سرفراز شاہد کی طبع آزمائی ملاحظہ ہو:
آہ
بھرتی ہوئی آئی ہو سلمنگ سنٹر
آہ
کو چاہیے اِک عمر اثر ہونے تک
ڈائیٹنگ
کھیل نہیں چند دنوں کا بیگم
اِک
صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک
اپنے
مشاہدات کی سائنسی توجیہات نے سرفراز کو ایک جداگانہ اندازِ تخاطب عطا کیا ہے جو
نذیر احمد شیخ کے بعد صرف ان کی راہ ہے اور ان کے بعد اس پر کسی اور کی آمد ابھی
تک ممکن نہیں ہوئی۔کلامِ سرفراز سے سائنسی تجزیات کی اہم مثالیں پیش ہیں :
ہر
گوہر حسین ہے اک کاربن کا روپ
یاقوت
بن گیا کبھی مرجان ہو گیا
اِک
خلا باز کی سن
Post a Comment