Facebook SDK


 

 اردو میں اسلامی ناول کی روایت اور ارتقاء


اردو ناول میں دینی پس منظر،مذہبی فلسفے کے تذکرے اوراسلامی حوالوں سے متعلق ہے۔پاکستان میں اس حوالے سے بہت ناول لکھے گئے،بلکہ کچھ اردو ناول تو تقسیم سے بھی پہلے کے ہیں۔ان سب ناولوں کاتذکرہ تویہاں ممکن نہیں،مگر کچھ ناولوں پر طائرانہ نگاہ ڈالیں گے،جن کے موضوعات کا تعلق مذہبی فکروفلسفے سے ہے۔ان اردو ناولوں میں دوطرح سے مذہبی فکروفلسفہ اوراسلامی حوالوں کاتذکرہ ملے گا۔پہلی نوعیت شعوری کوشش ہے،جس کا اندازہ تحریر پڑھ کر ہوتا ہے،جب کہ دوسری نوعیت لاشعوری ہے،جس میں نہ چاہتے ہوئے بھی مذہب کے اثرات جھلکتے ہیں۔

اردو ناول کو مختلف ادوار میں تقسیم کیاجائے،تومیری ناقص رائے میں تین درجات بنتے ہیں۔پہلادورکلاسیکی ناولوں کاہے۔یہ تقسیم سے پہلے کا زمانہ اوراردو ادب میں اسلامی فکروفلسفے کی ابتدائی مدارج طے کرنے والا دور ہے۔ دوسرے دور میں وہ ناول شامل ہیں،جن کی تخلیق قیام پاکستان کے بعد ہوئی اورسنہ دوہزار تک لکھے جاتے رہے۔ تیسرے دور میں شامل ہونے والے ناول وہ ہیں،جوسنہ دوہزار کا ہندسہ عبور کرنے کے بعد لکھے گئے۔

ہمارا پیمانہ چونکہ اسلامی فکروفلسفے کے تناظر میںناول کودیکھناہے۔اس زاویے سے ہم اگر جائزہ لیں ،تو مشاہدے میں دو طرح کا ادب دکھائی دے گا۔اولین ادب وہ ،جس کو کلاسیکی درجہ ملا اورکچھ وہ ناول جو بعد ازتقسیم لکھے گئے،مگر ان میں کلاسیکیت کا رچاؤ ہونے کی وجہ سے اول درجے میں شمار کیے گئے۔ان ناولوں نے اردو ادب کے سنجیدہ قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔


ثانوی ادب وہ،جن کا تخلیقی میدان ڈائجسٹ ہوتا ہے۔انھیں عام طورپر سطحی ادب کے طورپر دیکھا اور پڑھا جاتا ہے،مگر اس میں بھی کئی بہترین تحریریں منظر عام پر آئیں اورانھیں مقبولیت بھی حاصل ہوئی،بلکہ میرے خیال میں اب اس ادب کو پڑھنے والے قارئین زیادہ ہیں، کیونکہ اسی ادب کو بنیاد بناکر اب ٹی وی ڈراما بنایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے قارئین کے بہت بڑے حلقے کی توجہ اس ادب کی طرف راغب ہوئی ہے۔

اردوادب کے شعبے میں سب سے زیادہ کام ناول کی صنف میں ہوا۔یہ الگ بات ہے ،اردوزبان کی کلاسیکی داستانوں،افسانوں اورشاعری میں بھی ہمیں یہ رنگ جابجا ملتاہے۔داستانوں میں اس کی ایک مثال’’باغ وبہار‘‘ہے۔کئی افسانوں میں بھی یہ طرزِ فکر نمایاں رہی۔قیام پاکستان سے پہلے اسلامی ادب نامی ایک تحریک بھی شروع ہوئی تھی،جس کے تحت ترقی پسند مصنفین کے تخلیق کردہ ادب کا تدارک کرنے کی کوشش کی گئی۔اس تحریک سے مولانامودودی اورماہرالقادری جیسی نابغۂ روزگارہستیاں وابستہ تھیں،مگر اس تحریک کو کچھ خاص کامیابی نہ مل سکی۔اس تحریک کامقصد یہی تھا، اسلامی نقطۂ نظر کاحامل ادب تخلیق کیاجائے تاکہ ترقی پسند ادب کے اثرات کو محدود کیاجاسکے۔

کلاسیکی ناول نگاری میں ڈپٹی نذیر احمد کا ناول’’ابن الوقت‘‘ایک شاندار مذہبی عکاسی کاحامل ناول ہے۔عبدالحلیم شررکاناول’’فردوسِ بریں‘‘بھی اپنے پلاٹ میں انفرادیت رکھتاہے۔مرزاہادی رسوا نے ’’امراؤ جان ادا‘‘جیسا مقبول ناول لکھا،ہرچند کہ اس ناول کامرکزی خیال ایک طوائف ہے،مگر اس میں بھی کئی جگہ اسلامی اقدار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

شرر نے اردو میں تاریخی ناول تخلیق کر کے ایک نئی روش کا آغاز کیا اور اپنے ناولوں میں اسلام کے شاندار ماضی کا کثرت سے ذکر کیا اور اس روش کو انھوں نے اپنا نصب العین سمجھا جس طرح نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعہ مسلمانوں کے متوسط طبقے کی معاشرتی اخلاقی، معاشی مذہبی اصلاح اور مستقبل کو سنوازنے کی کوشش کی اس طر ح شرر نے ماضی کی عظمت کو دہرا کر مسلمانوں کو راہ مستقیم پر چلانے کی کوشش کی اور قومی اتحاد بھائی چارگی اورانسان دوستی کا سبق سکھایا تاکہ مسلمانوں کا مستقبل روشن ہو۔ شرر کے دل میں قوم کا درد تھا انھوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ پورے قوم کی اصلاح کی کوشش کی ہے ۔ انھوں نے ناول کو اپنے خیالات اور تصورات یعنی اپنی اصلاحی مقصد کو قوم تک پہونچانے کا ذریعہ بنا یا اور ناول کے فن کو اردو میں بر تنا شروع کیا جس میں شرر کو اولیت حاصل ہے ۔ اس کی مثال ان کا ناول ’’ فردوس بریں‘‘ ہے ۔ ناول کی وہ خوبیاں جو نذیر احمد اور سرشار کے یہاں نہیں ملتی شرر نے ان کی طرف توجہ دی ہے ۔
شرر نے اردو میں ناول نگاری کو ایک مسئلہ فن کی طرح برتا اور اپنے ناولوں میں پر تکلف منظر نگاری کی چاشنی اور چٹخارے اور ایک خاص قسم کی انشا پردازی کو اس طرح جگہ دی کہ یہ بھی فن کے اہم جز ہوگئے ۔ انھوں نے مغربی فن کے مبادیات اور مشرقی مزاج کی شوخی ورنگینی کے حسین امتزج کو فروغ دیا جس کی تقلید ان کے بعد آنے والے ناول نگاروں نے بھی کی ۔


محمد علی طبیب نے شرر سے حد درجہ متاثر ہو کر ناول لکھے ہیں ان کے ناولوں میں شرر کے فن اور اثرات نمایاں نظر آتے ہیں جس طرح شرر نے مسلمانوں کے کارہائے نمایاں کو یاد دلا کر عہد حاضر کے زوال کے اسباب پر غور و فکر کرنے کی دعوت دی اس طرح محمد علی طیب نے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے پند و نصائح اور لمبی تقریروں پر مشتمل ناول لکھے جس نے ان کے فن کو نقصان بھی پہنچایا ہے ۔

اسلامی تاریخ کے حوالے سے سب سے زیادہ ناول لکھنے والے ناول نگارنسیم حجازی ہیں،جنہوں نے اپنے ناولوں میں طارق بن زیاداورصلاح الدین ایوبی جیسی سپہ سالار شخصیات کوموضوع بنایااوراسلامی تاریخ کے تناظر میں ’’آخری چٹان‘‘اور’’اورتلوارٹوٹ گئی‘‘جیسے ناول لکھے۔ان کے دوسرے ناولوں میں بھی ان کی یہ تکنیک دیکھی جاسکتی ہے۔ایم اسلم اورخان آصف کے ناولوں میں بھی مذہبی ماحول اوراسلامی تاریخ نگاری کامضبوط رجحان پایاگیا۔

فضل احمد فضلی کاناول’’خون جگر ہونے تک‘‘میں توحید کے موضوع کوناول کے پلاٹ میں ڈھالاگیا۔رضیہ فصیح احمد کے ناول ’’آبلہ پا‘‘میں اسلامی نقطۂ نظر کے کچھ نکات زیربحث آتے ہیں۔قرۃ العین حیدر کے ناول’’کارجہاں دراز‘‘میں کہیں کہیں اسلامی فکر کی نشاندہی ہوتی ہے اوران کے ناول ’’آگ کادریا‘‘جس میں بودھ مت کومرکزی خیال بنایاگیاہے،اس میں بھی کچھ مقامات پر اسلامی فکر کاتذکرہ آیاہے۔انتظارحسین کے سوانحی طرز کے ناول ’’تذکرہ‘‘ میں بھی مذہبی پہلوموجود ہے۔شوکت صدیقی کے ناول ’’خدا کی بستی‘‘میں بھی یہی رُخ نمایاں ہے۔اسی طرح ٹی وی ڈرامے کے لیے فاطمہ ثریابجیاکے ڈراموں میں بھی اسلامی تہذیبی وتمدن کی عکاسی ہوتی ہے،ان کا کھیل ’’بابر‘‘اسی سلسلے کی کڑی ایک تھا۔

جدید اردو ناول میں پہلی نوعیت کے جن چونکا دینے والے ناول نگاروں نے نمایاں اورمعیاری کام کیا،ان کے نام اورنگارشات کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔اشفاق احمد کاناول گڈریا،بانوقدسیہ کا راجاگدھ،قدرت اللہ شہاب کا یا خدا،ممتاز مفتی کا الکھ نگری،جمیلہ ہاشمی کادشت سوس وغیرہ شامل ہیں۔یہ وہ ناول ہیں،جن کے ماخذات اسلامی فکروفلسفے سے لیے گئے۔ان ادیبوں نے بالواسطہ یا بالاواسطہ مذہبی پہلو کوذہن میں رکھ کر یہ ناول لکھے۔


رحیم گل کاناول جنت کی تلاش بھی روحانی تجربات پر مبنی ہے۔ عبد اللہ حسین کے ناول’’قید‘‘میںقدامت پرست اورروشن خیال کرداروں کے درمیان مکالمہ ہوتا دکھایا گیا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’راکھ‘‘میں بھی ایک دو مقامات پر کچھ اسلامی نکتے قلم بند ہوئے ہیں۔اسی طرح کچھ غیر مسلم ادیبوں نے بھی اسلامی فکر کو دیگر مذاہب کے ساتھ تقابل کرکے ناول میں ڈھالاہے۔ان میں سب سے مقبول ناول نگارمنشی پریم چند ہیں،جنہوں نے ’’میدان عمل‘‘جیسا ناول لکھا۔اس میں دین اسلام اورہندومذہب کے مابین کرداروں کے ذریعے گفتگو ہوتی دکھائی گئی ہے۔

جدید اردو ناول کی دوسری نوعیت کے جن ناول نگاروں کو عہدحاضر میں بہت پذیرائی ملی،ان میں التمش کاناول داستان ایمان فروشوں کی،علیم الحق حقی کاعشق کاعین،بشری رحمن کاپارسا،عمیرہ احمد کا پیر کامل،ہاشم ندیم کا عبداللہ،قیصرہ حیات کا الف اللہ اورآخری انسان،کامران امجد خان کا،تیمور ہوں میں،خان آصف کا بت شکن اور الیاس سیتاپور ی کاناول صادق از دکن شامل ہیں۔ایک بات جو محسوس ہوتی ہے کہ پاکستانی ناول نگار کتنے ہی روشن خیال کیوں نہ ہوجائیں،مگر ان کے ہاں اسلامی فکر کی جھلک دکھائی دیتی ہے،کیونکہ وہ ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں،جس میں طرزِ زندگی مذہب سے خاصا قریب ہے۔ان کو پڑھنے والے بھی اسی فکر کے حامل لوگ ہیں،اسی لیے کسی بھی تخلیق مذہبی عنصر در آنا فطری بات ہے۔

بہت سارے ادیب ایسے بھی ہیں،جنہوں نے ایک سے زیادہ ایسے ناول لکھے،جن میں اپنی تحریر کی بنیاد اسی طرز فکر پر رکھی۔اسلامی تاریخ اوراس کے مختلف ادوار کو پلاٹ میں تقسیم کرکے فرضی اورحقیقی کرداروں کے ذریعے ناولوں کو تخلیق کیاگیا۔اسلامی فکروفلسفے کو اپنا کر ایک سے زاید ناول لکھنے والوں میں سرفہرست ناول نگاروں میں ڈپٹی نذیر احمد،نسیم حجازی،ایم اسلم،اشفاق احمد،بانو قدسیہ،ممتاز مفتی،جمیلہ ہاشمی،التمش،خان آصف،الیاس سیتاپوری، عمیرہ احمد، ہاشم ندیم ہیں۔انھوں نے اسلامی فکر کو مستقل اپنائے رکھااوراسے تخلیقات کاحصہ بھی بناتے رہے۔

ناول کی صنف ایک مشکل صنف ہے،خون جگر مانگتی ہے، مگر یہ ابلاغ کاایک بہترین اظہار ہے۔اس میں مشاہدہ اور ریاضت دونوں درکار ہیں۔اسی لیے ناول نگاروں کی تعداد محدود ہے،مگر ہمیں اچھے ناول نگاروں کی ضرورت ہمیشہ رہے گی،تاکہ نئی نسل اپنے فنی ورثے اورتاریخ سے واقف ہوسکے۔اردوادب میں محفوظ کی ہوئی تاریخ مستقبل میں ہمارے کام آئے گی۔


 اردو میں اسلامی ناول کی روایت اور ارتقاء
اردو میں اسلامی ناول نگاری
اردو ادب میں اسلامی تاریخ 
نسیم حجازی کی اسلامی ناول نگاری
اسلامی ناول نگاری کی روایت و ارتقاء

Post a Comment

Previous Post Next Post