Facebook SDK

 

اردو افسانے میں حقیقت نگاری کی روایت


افسانہ کی طرح شاعری کو بھی لوگ نہایت بے باکی کے ساتھ کذب اور غلط بیانی پر مبنی سمجھتے ہیں۔ شعر اور افسانہ فنون لطیفہ کی قریب قریب ایک ہی سی کڑی ہیں۔ دونوں انسان کی ایک ہی رگ کے لئے نشتر بنتے ہیں ، دونوں میں چند مخصوص اثرات کی بنا پر برابر کا اثر ہے۔ افسانویت اور شعریت، جذبات اور احساسات کا جن گوشوں پر حکمراں ہے ، وہاں تک اس صداقت اور حقیقت کا گزر بالکل ایسا ہی ہے جیسا رندوں کی محفل میں کسی زاہد خشک کا، جو غنچوں کے حسن دل آرام کے سامنے اپنی حقیقت طراز ریش کے جلوے دکھاکر لوگوں کو ان کی حقیقتوں سے آشنا کرنا چاہتا ہے۔

افسانہ، شعر، مصوری، بت تراشی اور اس قسم کی ہر لطیف چیز کی بنیاد فطرت انسانی کے کسی نہ کسی پہلو پر رکھی جاتی ہے۔ جو لوگ ان چیزوںمیں صداقت تلاش کرتے ہیں ان کا یہ مقولہ ہے کہ یہ پہلو ہر ممکن طریقہ سے حقیقی و اقعات کا پورا پورا عکس ہونا چاہئے۔ اس میں ذرہ برابر بھی کوئی اور چیز شامل نہ کی جائے۔ شامل کرنے کا تو کیا ذکر اس میں سے کچھ کم کرنا بھی ان لوگوں کے نزدیک ایک بڑا گناہ ہے۔
حقیقت پسندوں کا دوسرا مقولہ یہ ہے کہ افسانہ میں روزانہ زندگی کی عام باتیں بیان کرنی چاہئیں۔ ان میں رومانی، تخئیلی اور دور ازکار چیزوں کا ذکر بالکل فضول اور بے معنی ہے۔ ہر وہ چیز جسے ہم اپنی روزانہ زندگی میں دیکھتے ہیں ، جو دوسرے ہمارے سامنے کرتے ہیں، سوسائٹی کا نظام جس طرح برابر چلتا ہے ، اس کے جو مخصوص اثرات اس کے گرد و پیش کی چیزوں پر پڑتے ہیں ، افسانہ نگار کو چاہئے کہ صرف انہیں چیزوں کو اپنے افسانہ کا موضوع بنائے۔ اسے اس کا بالکل اختیار نہیں کہ وہ ان چیزوں میں سے کچھ کم کردے یا اپنی خوشی سے اس میں کچھ شامل کردے۔

مختصر طور پر یہ ہے حقیقت اور صداقت کے حامیوں کا نقطہ نظر جس پر وہ ہر دوسری چیز کو قربان کرنے میں کوئی عیب نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک حقیقت اور صداقت کے علاوہ ہر دوسری چیز بے معنی ہے۔

 افسانہ میں حقیقت اور صداقت کا ہونا لازمی ہے۔ ہم اپنے افسانوں کو کبھی پسندیدہ نہیں خیال کرسکتے اگر وہ ہماری فطرت کے کسی نہ کسی حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جس بات کے بے حد خیال رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہی ہے کہ اس حقیقت کو فن کا پابند ہونا لازمی ہے۔
اسے افسانہ میں سائنٹیفک نہیں بلکہ شاعرانہ اور افسانوی حقیقت بن کر رہنا پڑے گا۔ اگر کوئی افسانہ نگار افسانہ میں ایک واعظ کی طرح تلقین اخلاق کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اسے یقیناً افسانہ نگاری کے فن سے بے بہرہ سمجھنا چاہئے۔ افسانہ کی بنیاد کسی بلند اخلاقی مسئلہ پر ہو سکتی ہے ، اس کا مقصد کسی بلند اخلاق کی تلقین ہو سکتا ہے ، لیکن افسانہ نگار کو اس جذبہ کو سائنٹیفک حقیقت کی حد تک نہ پہنچانا چاہئے تاکہ اس سے حس جمالیاتی کو ٹھیس نہ لگے۔
افسانہ کا آبگینہ ان ٹھوس حقیقتوں کے لئے نہیں بلکہ ایک شاعرانہ شراب بھرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔


پریم چندکی حقیقت  نگاری 

پریم چند نے اپنے افسانوں میں حقیقت بیان کی، انہوں نے نہ صرف عوامی زندگی کی ترجمانی کی،  بلکہ محنت کش طبقہ کے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کو بہترین انداز میں  پیش کیا۔ پریم چند نے اپنے افسانوں میں ھقیقت نگاری مے زریعے معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی تمام ممکنہ فنی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے۔ پریم چند کی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ان کا افسانہ ـ’’ کفن‘‘ ہے۔پریم چند نے کفن میں سماج کی حقیقت بیان کی ہے ۔ اس افسانے میں انہوں نے غربت وافلاس۔اپنوں کی بے حسی۔۔۔۔بے بسی ولاچاری۔۔۔۔معاشرتی استحسالی۔طبقاتی فرق۔۔۔۔۔گھٹیامعاشرتی رسومات وغیرہ۔ جیسی حقیقت کی ہوبہو تصویر پیش کی ہے۔

پریم چند حقیقت نگاری کے بارے میں درج ذیل رائے رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں:۔

''میں حقیقت پسند نہیں ہوں ۔ کہانی میں چیز جیوں کی توں رکھی جائے تو وہ سوانح عمری ہوجائے گی۔ ستکاری کی طرح ادیب کا حقیقت نگار ہونا ضروری نہیں، وہ ہوبھی نہیں سکتا۔ ادب کی تخلیق گروہ انسانی کو آگے بڑھانے ، اٹھانے کیلئے ہوتی ہے مثالیت ضرور ہولیکن حقیقت پسندی اور فطری انداز کے برعکس نہ ہو۔ اسی طرح حقیقت نگار بھی مثالیت کو نہ بھولے تو بہتر ہے،،

ان کی اس حقیقت نگاری سے یہ پتا چلتا ہے کہ انہوں نے جیسا ماحول پایا اس کو ویسا پیش کیا۔ اگر وہ چاہتے تو ہندوستانی دیہات کو جنت کا ٹکڑا بنا کر پیش کر سکتے تھے مگر پریم چند نے انھیں ویساہی دکھایا جیسے وہ حقیقت میں تھے۔ ان کی یہی حقیقت نگاری ہے جس کی وجہ سے وہ ہم عصر انسانہ نگاروں سے ممتاز اہمیت رکھتے ہیں۔جس طرح شاعری میں نظیر اکبر آبادی کی نظر عوام کی خوشیاں، عوام تہواروں میلوں ٹھیلوں پر ٹھہرتی اس طرح پریم چند کی نگاہ عوام کے دکھ درد ان کے مسائل پر جا رکتی ہے انہوں نے اپنا قلم غریب کسانوں ۔کچے گھروندوں اوع ان کے مکینوں ۔جاگیر داروں اور ساہوکاروں کے ڈسے ہوئے لوگ کے لیے وقف کر دیا ۔انہوں نھ اپنے دیہات کی پسماندگی کو عمدہ طریقے سے پیش کیا ہے۔ سادہ نثر لکھنے کی نباد میر امن ۔سر سید اھمد خان اور نذیر احمد ڈال چکے تھھ مگر روزمرہ کی عکاسی جتنے  سادہ انداز میں پریمچند نے کی،یہ انہیکے حصے میں آئی جب پریم چند صاف ،واضح اور سادہ نثر لکھ رہے تبھ وہاں اردو ادیب تشبہاتو استعارات کے طوطے مینا بنا رہے تھے۔ماروائی کرداردوں کے مقابلے میں پریم چند نے حقیقی اور عام زندگی کھ کرداردوں کو موصوع سخن بنایا۔ پریم چند کی حقیقت نگافی کا خمیر عام زندگی سے اتھایا تھا ان کے کردار عملی تھھ ان کی تقلیق کردہ ماحول ان کا آنکھوں دیکھا تھا ۔


پریم چند ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:

ـ’’ افسانہ حقائق کی فطری مصوری کو ہی اپنا مقصد سمجھتا ہے۔ اس میں تخیلی باتیں کم اور تجربات زیادہ ہوتے ہیں ۔‘‘

 پریم چند کی صورت میں سماجی حقیقت نگاری اور سیاسی حالات کے تجزیے سے افسانے نےباپنا نیا سفر شروع کیا

حقیقت نگاری  کے گہرے شعور کے ساتھ نگارش میں دلچسپی  اور خوبصورتی پیدا کرنے میں پریم چند کایہ بڑا کارنامہ ہے۔  سرسید احمد خاں اور نذیر احمد گو پریم چند سے پہلے ہی سیدھی سادی نثر نگاری کی داغ بل ڈال چکے تھے اور سادگی اور پرکاری کا خوبصورت سنگم  بنا چکے تھے پرپھر بھی افسانہ نگاری کے میدان میں کسی نے سادگی اور روزمرہ زندگی کے ان کو اس شدت اور بے باکی کے ساتھ محسوس نہیں کیا تھا۔ پریم چند اس دور میں افسانہ نگاری کررہے تھے جب ہمارے انشاء پرداز آراستہ عبارت، تشبیہ و استعارہ کی چاشنی اور ماورائی الجھے ہوۓ فلسفانہ کرداروں کے چکر میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے کردارعملی نہ تھے۔ پریم چند نے بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ زندگی۔متالطم اور موج زن زندگی کا دروازہ کھول دیا وہ صرف خیال اور آرائش کے ادیب نہ تھے۔ ان کے پاس کوئی ماورائی جادو، کوئی جدید سے جدید مغربی موضوع سخن نہ تھا۔ مگران کا چونکا دینے والا حربہ تھا۔ حقیقت نگاری اور سادگی تھی۔

مغرب میں حقیقت نگاری کے نام سے جوتحریک چلی تھی اس کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی حقیقت نگاری کو بہت کچھ تاریکی ادسی اور لاطلائل تفصیل پسندی کا مترادف سمجھاجانے گا لیکن پریم چند کی حقیقت نگاری کتابوں کی بجائے عملی زندگی کی حقیقت سے پیدا ہوئی تھی۔ اس لئے ان کے پاس اپنے خیالات کیلئے صرف ایک دلیل ہے، حقیقت اورعمل کی دلیل۔ ان کے ہاں تاثر محض انفراری پسندیدگی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ واقعات کے بے کم و کاست بیان سے پیدا ہوتے ہیں۔


منٹو کے افسانوں میں حقیقت نگاری

تاریخ کی روشنی میں منٹو کا پہلا افسانہ ’’تما شہ ‘‘ہے۔جس میں جلیاں والاباغ کا قصہ بیان کیا گیا ہے ۔یہ افسانہ ۱۹۱۹ ؁ کے مارشل لا اور جلیاں والا باغ کے خونیں مناظر اور جنرل ڈائر کے وحشیانہ مظالم کی یادگار ہے۔ اس افسانے کا تانا بانا باپ اور بیٹے ہیں۔اس افسانہ میں ایک چھ سال کا بچہ ہے جس کا نام خالدہے ۹۱۹ ۱ ؁ میں منٹو کی عمر بھی چھ یا سات سال ہی رہی ہوگی، اسلئے یہ گمان گزرتا ہے کہ کہین چھ سال کا بچہ منٹو تو نہیں ۔اک اقتباس پیش خدمت ہے۔
’’
بازار آمدورفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا ۔دور فاصلے سے کتوں کی دردناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں ۔ چند لمحات کے بعد ان چیخوں میں ایک انسان کی دردناک آواز بھی شامل ہو گئی ۔خالد کسی کو کراہتے سن کر بہت حیران ہوا ۔ابھی وہ اس آواز کی جستجو کے لئے کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا ۔جو چیختا ،چلاتا ، بھاگتا چلا آرہا تھا۔ خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑ کھڑا کر گرگیا اور گرتے ہی بیہوش ہو گیا ۔ اس کی پنڈلی پر ایک گہرا زخم تھا ۔جس سے فوارہ کی مانند خون نکل رہا تھا ۔یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خو ف زدہ ہو گیا۔بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا اور کہنے لگا ۔’’ ابا ابا بازار میں ایک لڑکا گر پڑاہے ۔اسکی ٹانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔‘‘ 
(
تما شا
منٹو کے مختلف افسانوی مجمو عے سے متعلق بہت سی جانکاری میں نے انٹرنٹ سے حاصل کی۔مثلاً یہ کہ منٹو کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’آتش پارے‘‘ ہے۔ یہ افسانہ۱۹۳۶ ؁ میں لاہوری دروازہ ،لاہور سے شائع ہوا ۔ ’’آتش پارے ‘‘کے دیباچے میں انہوں نے لکھا ہے کہ: 151
بچپن سے ہی اُن کی آنکھوں نے ایسے ہی مناظر دیکھے اور ایسے ہی ماحول کو جھیلا ۔اُن کے دِماغ میں جو کچھ نقش بنتاگیا افسانوں کی صورت میں ڈھلتا گیا۔ ٹھیک اسی طرح کا واقعہ افسانہ ’’۱۹۱۹ ؁ کی بات ‘‘میں بھی ہے ۔یعنی وہی خونیں مناظر اور انگریزوں کے ذریعہ ڈھائے گئے مظالم۔ یہ افسانہ بھی جلیاں والا باغ کے واقعے سے ہی تعلق رکھتا ہے ۔افسانہ میں دو طوائف بہنوں کاایک بدمعاش بھائی ’’تھیلا‘‘ آزادی کی لڑائی میں شریک ہوکر انگرایزوں کا نشانہ بنا اور اس کی لاش کو دیکھ کر طوائف بہنوں کا کیا حال ہوا ۔ دونوں میں ہمت تھی ، حوصلہ تھا لیکن بے رحم انگریزوں نے انھیں بھی نہیں بخشا۔
منٹو کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’دھواں‘‘ ہے۔ تیسرا افسانوی مجموعہ ’’سیاہ حاشئے‘‘ اور چوتھا افسانوی مجموعہ ’’منٹو کے افسا نے ‘‘ہیں۔منٹو کے افسانوں کے ذریعہ ان کی شخصیت اور ذہن کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے۔ان کے خون میں گرمی تھی ۔وہ انقلاب پرور تھے۔ وہ ادب اور سماج کے باغی تھے۔ انہوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کیا اور افسانوں کے ذریعہ سماج کو روشناس کرایا ۔ان کی حقیقت نگاری سے متعلق پروفیسر گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ 
’’
یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں ۔ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔‘‘ 


دیباچہ: آتش پارے
منٹو کے افسانوں میں کہیں بچپن اور لڑکپن کی شرارت ہے تو کہیں نفسیا ت اور فلسفہ ۔ منٹویوروپی مصنفین سے بہت متاثر نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر وہاب اشرفی لکھتے ہیں کہ: 151 
منٹو پر تقریباً چھ مرتبہ مقدمہ چلا ۔تین مرتبہ ہندوستان کی جانب سے ،تین مرتبہ پاکستان کی جانب سے۔کیونکہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے ۔اُن کے خیالات کو کبھی لوگ فحش کہتے تھے اور کبھی باغیانہ۔ جب ان پر فحش نگاری اور باغیانہ خیالات کے لئے الزام لگایا گیا ، تب انہوں نے اپنے مضمون میں اس الزام کے جواب میں لکھا، کہ: 151
’’
منٹو Doxa کی نقاب اس لئے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کر سکے ۔منٹو کا فن عورت کی گھائل روح کی کراہ اور درد کی تھاہ پانے کا فن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر و بیشتر منٹو کے کردار گوشت پوست کے عام انسانوں سے کہیں زیادہ پائیدار اور کہیں زیادہ دردانگیز بن جاتے ہیں ۔وہ ہمیں صدمہ پہنچاتے ہیں ۔جھنجھوڑتے ہیں۔‘‘
(
منٹو کی نئی پڑھت ،متن،ممتا اور خالی ٹرین ’جدیدیت کے بعد ‘ ص ۲۲۳ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور ، ۲۰۰۶ ؁ء
’’
جن مصنفین کا ذکر ان کے یہاں بار بار آتا ہے وہ روسو ، مارکس، لینن ، اسٹالین،گورکی اور ان سب کے علاوہ وکٹر ہیو گو ہیں۔ یہ سب ان کے مطالعے میں رہے تھے۔‘‘ 
(
تاریخ ادب اردو ، حصہ دوم ، پروفیسر وہاب اشرفی ص ۸۶۳ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
’’
اگر ویشیا کا ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے۔ اگر اس کا وجود فحش ہے ،اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہئے ۔ویشیا کو مٹائیے ،اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔ ‘‘
منٹو کے ایسے بہت سے افسانے ہیں جس میں وہ دکھانا چاہتے ہیں کہ کس طرح Pimps عورتوں کے ذریعہ ناجائز طریقے سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔دیکھئے اُن کے افسانے کا ایک اقتباس: 151 
’’
بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہوئی تو میرا دماغ چکرا گیا ۔مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ۔لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دور کردی ۔بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مالدار آدمی کی داشتہ بن جائے ۔ایسے طریقے سیکھ جائے جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپئے وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہو سکے۔‘‘



منٹو کے اس طرح کے افسانے’’ ہتک‘‘ ،’’ ٹھنڈا گوشت‘‘ ، ’’ممی ‘‘، ’’بو‘‘ ، ’’جانکی‘‘ ، ’’ سڑک کے کنارے‘‘ اور’’ پھندنے‘‘ ا سی قسم کے کے افسانے ہیں۔اور ہاں’’ کالی شلوار‘‘ اور’’ بری عورت‘‘ بھی۔ان افسانو ں میں عورت کی مجبوری اور بے بسی کو دکھایا گیا ہے۔اگر چہ وہ غلط دھندہ کررہی ہیں ۔یہ طوائفیں ضرور ہیں جن کو سماج بری عورتیں کہتا ہے برا سمجھتا ہے لیکن ان عورتوں کے بھی دل ہیں اور وہ بھی انسان ہیں وہ جو غلیظ بستیو ں میں رہتی ہیں۔ گندے میلے کپڑے پہنتی ہیں، وہ بھی کسی کی بیٹی ہیں لیکن قسمت کے ہاتھوں ذلت کی زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔یہ ماں بن کر بھی ماں نہیں، بیوی بن کر بھی بیوی نہیں۔
طوائفوں سے متعلق مرزا ہادی رسوا بہت پہلے ’’امراؤ جان اد ا‘‘ لکھ چکے ہیں ۔ اس ناول میں بھی طوائفوں کے مسائل کو دکھایا گیا ہے۔ کہ ایک لڑکی طوائف بن جانے کے بعد کہیں کی نہیں رہ جاتی ہے چاہے وہ خوبیاں رکھتی ہویا نہیں جبکہ اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں ۔وہ مجبورہے۔مظلوم ہے ۔تاہم رسوا اور منٹو میں فرق یہ ہے کہ منٹو نے کوئی شے پردے میں نہیں رکھی جبکہ رسوا نے ہرشے پردے میں رکھی ۔
بیدی نے بھی اپنے افسانوں میں عورت کی مجبوری اور بے بسی کو ہی دکھایا ہے ۔لیکن بیدی کے یہاں عورت ماں ، بہن ، بیٹی اور بیوی ہے ۔ان کا رشتہ پاک ہے ۔منٹو نے سب سے منفرد اور جدا گانہ طرز تحریر اختیار کیا ۔ان کے ایسے افسانو ں میں عورت صرف عورت ہے ۔
جیسا کہ میں نے پہلے ہی لکھا کہ منٹو متنوع ذہن رکھتے تھے ۔انکے فسادات سے متعلق افسانے بھی شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔فسادات ہوئے ہندو اور مسلما ن آپس میں لڑے۔ملک کا بٹوارہ ہوا۔ان تمام مسائل کو افسانوں کا رنگ دے کرمنٹو نے اپنی فنکاری کا ثبوت دیا ۔
افسانہ ’’دو قومیں ‘‘ جس میں مرکزی کردار شاردا ہے جو مختار نامی شخص سے محبت کرتی ہے لیکن جب مذہب اور قوم کی بات آتی ہے دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں یہاں مذہب محبت کے درمیان دیوار بن جاتا ہے ۔یہ ایک مسئلہ ہے یہاں دوسرا مسئلہ قوتِ اِرادی کی کمی کا بھی ہے۔ اگر شاردا مذہب تبدیل کرلے .............. اور اس کے بعد کچھ سوچ کر وہ غم زدہ ہو جاتی ہے اور ر وتی ہو ئی کمرے کا دروا زہ بند کرلیتی ہے ۔
جنگ کے دوران افرا تفری ، بھا گ دوڑ ، گھرچھو ڑ کر کیمپ کی طرف روانگی اور پھر ان پر وحشیانہ حملہ ،ان واقعات کی منظر کشی ’’کھول دو‘‘میں کی گئی ہے ۔مرکزی کردا ر سکینہ حالات کی ستائی ہوئی ہے ،کسی قدر مجبور ہے ،بے بس ہے ۔مظلوم ہے ،ہوش و حواس کھو بیٹھی ہے ۔یہا ں تک کہ سائکلو جیکل مریض بن چکی ہے اور جب کمرے میں روشنی ہوتی ہے تو اس کی نیم مردہ آنکھو ں نے مرد صورت ڈاکٹر کو دیکھ کر اور ادھورا جملہ’ ’ کھول دو ‘‘ سن کر اس مریض پر کیا رد عمل ہوا وہ افسانہ کے آخری جملے سے بخوبی عیاں ہو جاتا ہے۔


منٹو سے متعلق وقار عظیم لکھتے ہیں کہ: 151
’’
منٹو میں اچھے افسانہ نگار کی ساری خوبیاں موجود ہیں ۔نئی سے نئی بات سوچ سکنے والا دماغ ،نئی بات کو نئے انداز سے کہ سکنے کا سلیقہ ، زبان و بیان پر قدرت ، اپنے ماحول کو غور سے دیکھ کر اس میں سے کام کی باتیں چن لینے والی نظر اور ہر چیز میں طنز و مزاح کا پہلو تلا ش کر سکنے کی صلا حیت۔‘‘
(
نیا افسانہ ، وقار عظیم ، ص ۱۶۴ ایجو کیشنل بک ہاؤس ، علی گڑھ

افسانہ ’’گور مکھ سنگھ کی وصیت ‘‘ میں افسانہ نگار نے ہندو مسلم فسادکا نقشہ کس ڈراما ئی انداز میں پیش کیا ہے۔ کس طرح فسادات کے ذریعے ہندو مسلم ایکتا پر ضرب لگائی گئی ۔ ملاحظہ فرمائیے: 151
افسانے میں مرکزی کردار گور مکھ سنگھ ہے ۔گورمکھ سنگھ نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹے سنتوکھ سنگھ کو یہ نصیحت کی تھی کہ جج عبدالحئی صاحب بڑے بھلے آدمی ہیں۔ ان کا ہم پر بڑا احسان ہے، اسلئے بیتا ان کی عزت کرنا ۔گور مکھ سنگھ کا انتقال ہو جاتا ہے۔عید کے دن سنتوکھ سنگھ جج عبدالحئی سے ملاقات کی غرض سے سوئیاں لے کران کے گھر جاتاہے ۔جج صاحب نیم بیہوشی کی حالت میں بستر مرگ پر ہیں ۔ فساد اپنے شباب پر ہے۔سنتوکھ سنگھ جج صاحب کی بیٹی صغرا سے ان کا حال معلوم کرتا ہے۔ صغراسے انکی حالت معلوم کرنے کے بعد وہ اسے سلام کرکے گھر سے باہر نکلتا ہے ۔اور اس کے بعد جوہوا ۔وہ مندرجہ ذیل اقتباس میں ملاحظہ فرمائیے: 151
’’
وہ مکان سے باہر نکلا اور وہاں ڈھاٹا باندھے ہوئے چار آدمی اس کے پاس آئے ۔دو کے پاس جلتی ہوئی شمعیں تھیں۔ اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور کچھ دوسری آتش خیز چیزیں ۔ایک نے سنتوکھ سنگھ سے پوچھا ۔
’’
کیوں سردار جی اپنا کام کر آئے ؟‘‘
سنتوکھ نے سر ہلا کر جواب دیا ۔ ’’ہاں کر آیا۔‘‘
اس آدمی نے ڈھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا۔ ’’تو کر دیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا ۔‘‘
’’
ہا ں ۔ ۔ جیسی تمہاری مرضی ۔‘‘ یہ کہہ کر سردار گورمکھ سنکھ کا بیٹا چل دیا ۔



افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ جس میں بٹوارے کا ماحول ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ایک طرح سے یہ بٹوارے کا المیہ ہے ۔جس میں مرکزی کرداربشن سنگھ ہے ۔پچھلے پندرہ برس سے وہ پاکستان کے پاگل خا نے میں بند ہے ۔اس کے رشتہ دار اس سے مہینے میں ایک بار ملنے ضرور آتے ہیں ۔ اس کے لئے پھل اور مٹھائیاں لاتے ہیں ۔ بشن سنگھ کوان کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے بشن سنگھ کی ایک بیٹی روپ کور ہے جو پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی ہے۔ بشن سنگھ اس کو نہیں پہچانتا ۔جب بھی پاگلوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے وہ غور سے ان کی با تو ں کو سنتا ہے اور اگر کو ئی اسکی رائے جاننا چاہتا ہے کہ وہ ہندوستان میں ہے یا پاکستان میں تو وہ لوگو ں پر برس پڑتا ہے۔
ایک دن تبادلہ کے دوران جب بشن سنگھ کو واگہ بورڈر پر لایا جا رہا تھا تو اس کی ذ ہنی اور جسمانی کیفیت کو کس طرح حقیقت کے آئینے میں پیش کیا گیاہے۔ایک اقتباس پیش خدمت ہے : 151
’’
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ۔اگر نہیں گیا تو فوراً اسے وہاں بھیج دیا جائے گا، مگر وہ نہ مانا ۔جب اس کو زبر دستی دوسری طرف بھیجنے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔آدمی چونکہ بے ضررتھا۔ اس لئے مزید زبر دستی نہ کی گئی اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔ سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی ۔ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا اوندھے منہ لیٹا ہوا ہے ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ۔درمیانی زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا بشن سنگھ پڑا ہوا تھا ۔‘‘
ٹوبہ ٹیک سنگھ 
’’
منٹو کا زمانہ وہی ہے ۔ جو ترقی پسند تحریک کے عروج کا زمانہ ہے مگر زندہ رہنے والے فنکار تحریکات کے کبھی شکار نہیں ہوتے ۔سو منٹو ترقی پسند رہا اور نہ غیر ترقی پسند ۔وہ ایک افسانہ نگار تھا۔ اور صرف افسانہ نگار۔‘‘
(
منٹو کے بعد اردو افسانہ ، شخصیات و رجحانات ، رسالہ ادیب پٹنہ ص ۹۶
’’
منٹو کے افسانوی فن پر گوگول ، ترگنیف ، چیخوف اور گورکی کے واضح اثرت ہیں۔‘‘

’’ منٹو بنیادی طور پر انسان دوست ہے ۔وہ جب کچھ انسانوں کا مذاق اڑاتا ہے ۔انہیں گالیاں دیتا ہے ۔برا بھلا کہتا ہے تو اس وقت بھی اس کے اندر کے انسان سے قربت محسوس کرتا ہے۔ انکے اندر انسانیت کے بہترین عناصر کو تلاش کرتا ہے۔‘‘
(
منٹو کے نما ئندہ افسانے ، پیش لفظ، ڈاکٹر اطہر پرویز ، ص۱۱ ایجو کیشنل بک ہاؤس علیگڑھ)

’’ گو رے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھو ں میں شرا رے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چلا نا شرو ع کیا ۔اس کی چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہو ں کا کام اور بھی تیز کر دیا ۔وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا تھا ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں۔ اب ہمارا راج ہے بچہ ۔‘‘ 


نیا قا نون
’’
افسانے کی جان منگو کوچوان کا کردار ہے۔ ایک عام اور بالکل معمولی آدمی میں دلچسپی کے اتنے پہلوپیدا کرنا
منٹو کی کردار نگاری کا امتیازی وصف ہے۔‘‘
(
سعا دت حسن منٹو ، وارث علوی ، ص ۴۴ ، ناشر: ساہتیہ اکادمی، دہلی

’’ پہلا سماجی حقیقت نگار ی کا رجحان ہے ۔جس کی نمائندگی (بشمول پریم چند ) حیات اللہ انصاری ، اپندر ناتھ اشک، علی عباس حسینی ، رشید جہاں ، احمد علی ، راجندر سنگھ بیدی ، اختر اورینوی ، سہیل عظیم آبادی ، ہاجرہ مسرور،
بلونت سنگھ ، پرکاش پنڈت ، ہنس راج رہبر ، شوکت صدیقی اور ابوالفضل صدیقی کر رہے تھے۔ دوسرا انقلابی 
حقیقت نگاری کا رجحان ہے ،جس کے نما ئندہ افسانہ نگاروں میں کرشن چندر ، احمد ندیم قاسمی ، خواجہ احمد عباس ، مہندر ناتھ ، اے حمید ، ابراہیم جلیس اور انور عظیم وغیرہ پیش پیش تھے ۔تیسرا بے باک حقیقت نگاری کا رجحان جس کی نما ئندگی کرنے والوں میں سعادت حسن منٹو ، عصمت چغتائی ، عزیز احمد ، علی عباس اور خدیجہ مستور وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔‘‘
(
ترقی پسند افسانے کے پچاس سال ، پروفیسر قمر رئیس، ص ۳۶۱

منٹو کے خیالات سے متعلق پروفیسر ابو الکلام قاسمی ایک مضمون میں را ئے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: 151
خلیل الرحمن اعظمی منٹو کو ترقی پسند افسانہ نگار تسلیم کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ اشتراکی فکشن کے اثرات ان کے فن میں محسوس کرتے ہیں:۔
میرے خیال سے منٹو نے جو کچھ لکھا وہ ان کا آنکھوں دیکھا حال تھا ۔جنگ آزادی کی تباہی اور بربادی کا حال دیکھنا ہو ، یا وطن کے تقسیم ہو جانے کے بعدکا حال جاننا ہو ۔ کیو ں عورتیں بیوہ ہو گئیں ؟ کیو ں عورتیں طوائفیں بن گئیں ؟ کیوں بچے یتیم ہو گئے ؟کس طرح جوان دوشیزائیں وحشیوں کی ہوس کاشکار بن گئیں؟ان سوالوں کا جواب معلوم کرنے کے لئے منٹو کے افسانے پڑھئے ۔منٹو کے افسانے صرف افسانے نہیں ہیں بلکہ اپنے زمانے کی تاریخ ہیں۔
منٹو سے متعلق ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ: 151
’’
نیا قانون ‘‘ جنگ آزادی کے بعد کا افسانہ ہے ۔یہ افسانہ اپنی قسم کے افسا نوں میں شاہکار کا درجہ رکھتا ہے ۔اس افسانے کے ذریعہ آزادی حاصل کرنے کے بعد عوام الناس میں کس قدر جوش اور جذبہ تھا ۔اسی کی حقیقی عکاسی کی گئی ہے۔دیکھئے افسانے کا ایک اقتباس : 151
منگو کوچوان جوش میں آکر انگریز کی پٹائی تو کر دیتا ہے لیکن جب اسے پتہ چلتا ہے کہ قانون تو وہی ہے ۔جبکہ اسے ’’نیا قانون ‘‘ کے تحت سب کچھ بدل جانے کی امید تھی ۔اس افسانے میں آزادی کے بعد انگریزوں کے خلاف نفرت کو فنی حسن عطا کیا گیا ہے ۔ افسانہ ’’نیا قانون‘‘ سے متعلق وارث علوی کی رائے پیش خدمت ہے: 151
ہندوستان کو آزادی کے لئے کن کن مرحلوں کا ، مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا ۔عوام نے کن کن مصیبتوں کا ، دکھوں کا سامنا کیا ۔کس طرح خون کی ندیاں بہہ گئیں ، لا شوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ پاگل خانے اور جیل خانے بھر گئے ۔ کیمپ سے نوجوان دوشیزائیں غائب ہو گئیں اور ان دوشیزاؤں پر کس طرح کے قہربرپا کئے گئے۔ عوام الناس ان دنوں کن حالات سے گزر رہے تھے ۔ان کے ساتھ کیا پریشانیاں تھیں۔ہندوستان اور پاکستان میں بٹوارے کے بعد کن کن مسائل اور مصائب نے جنم لیا ۔انہیں مسئلوں اور مصیبتوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں


 اردو افسانے میں حقیقت پسندی کی روایت

اردو افسانے میں معاشرتی حقائق کی عکس بندی

پریم چند کے افسانے میں حقیقت نگاری

منٹو کے افسانے میں حقیقت نگاری


Post a Comment

Previous Post Next Post