Facebook SDK

 Arbi zuban o adab | Urdu language and literature | Arabic literature in urdu | MA urdu | Urdu assignments | Aiou assignments | Aiou solved assignments | code 5620

جمع و تدوینِ قرآن مجید

جمع قرآن سے مراد قرآن کریم کا جمع کرنا۔ خواہ حفظ سے ہو یا کتابت سے یا تلاوت کی ریکارڈنگ سے۔ اور تدوین سے مراد اس کو کتابی صورت میں ترتیب دینا ہے۔ان سب مراحل کی ایک دل چسپ معلوماتی تاریخ ہے جسے ایک طالب علم کے لئے جاننا بہت اہم ہے۔تاکہ وہ آگاہ رہے کہ یہ مقدس کتاب کس طرح کن کن ادوار سے گذر کر محفوظ ترین صورت میں ہم تک پہنچی؟
مقصد جمع قرآن: جمع قرآن کا مقصد یہی تھا کہ جس طرح قرآن مجید آپ ﷺ پر اترا ہے اور جس طرح آپ نے اسے پڑھا یا سکھایا ہے اسے لکھ کر محفوظ کرلیا جائے۔ یہ اللہ کا حکم تھا تاکہ مستقبل میں ممکنہ اختلاف جو قراءت یا اس کے الفاظ ، ترتیب اور لغت میں پیدا ہوسکتا ہے وہ نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے خود بھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی مگر اس حفاظت کا کام صحابہ رسول اور امت کے قراء وحفاظ سے بھی لیا۔
جمع قرآن کی دلیل: آپ ﷺ قرآن کی تنزیل میں سخت شدت محسوس کیا کرتے۔ اور اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں ہے۔تو اللہ تعالیٰ نے ابتداء میں ہی یہ فرمادیا :
{
لَا تُحَرِّكْ بِہٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۝۱۶ۭ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ۝۱۷ۚۖ} آپ قرآن پاک کو حاصل کرنے میں جلدی مت کیا کیجئے یقیناً اس قرآن کو جمع کرنا اور اسے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔
جمع کرنے سے مراد یہاں اس دور کی اور مستقبل کی قرآنی جمع ہے۔جو سینوں میں بھی ہوا اور سفینوں میں بھی۔قرآنہ سے مراد آپ ﷺ سے اسے ویسے ہی ترتیل سے پڑھوانا جس طرح آپ پر تازہ بتازہ اترتا تھا اور مستقبل میں مختلف قراء کی آوازوں سے بھی۔چنانچہ جبریل امین آپ ﷺ کے پاس جب آتے تو آپ غور سے سنا کرتے۔ پھر جب وہ چلے جاتے تو آپ اسے ویسا ہی پڑھ لیتے جیسا انہوں نے اسے پڑھا ہوتا۔


تدوینِ قرآن کے مختلف ادوار

روئے زمیں پر قرآنِ کریم ہی وہ واحد کتاب ہے، جو اب تک اُسی طرح محفوظ ہے، جس طرح آسمان سے اس کا نزول ہوا تھا، کیوں کہ اسے قیامت تک تمام انسانیت کے لیے ہدایت کا چراغ اور پوری نوعِ انسانی کے لیے حجت بننا تھا۔ چناں چہ حفاظت ِقرآن کے اس ربانی وعدے نے پوری دنیا پر یہ مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے۔ ترجمہ ”بلاشبہ ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘

قرآن مجید کے تحفّظ کا کام لکھنے سے زیادہ حفظ سے ممکن ہوا اور یہ زیادہ پائیدار عمل ہے۔ قرآن کے حفظ پر چوں کہ شروع سے زیادہ توجّہ دی گئی، اس لیے زمانے کی دست بُرد سے اس پر کوئی اثر پڑا، نہ یہ کسی انسانی غلطی، سہو کا شکار ہوسکا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی حفاظت کا خصوصی انتظام تھا، جس کی وجہ سے آج تک یہ کتابِ مقدّس اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور کوئی دَور چاہے جتنا مرضی تنزّلی کا شکار ہوجائے یا ترقی کرجائے، اس کی حفاظت پر قیامت تک کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ (ان شاء اللہ) بلاشبہ، یہ ایک زندہ معجزہ ہے۔ 

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے وقت اس کے الفاظ اُسی وقت دہرانے لگتے تھے تاکہ اچھی طرح یاد ہوجائیں اور کوئی کلمہ یاحرف دورانِ نزولِ وحی چُھوٹنے نہ پائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرماکر آپ ؐ کو اطمینان دلایا (ترجمہ) ’’آپؐ قرآن پاک کو جلدی یاد کرنے کے خیال سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے (کیوں کہ) اس (قرآن) کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا ہم نے اپنے ذمّے لے رکھا ہے۔‘‘(سورۃ القیامۃ:17,16)سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا سینۂ مبارک قرآنِ کریم کا سب سے زیادہ محفوظ گنجینہ تھا، جس میں کسی ادنیٰ غلطی یا ترمیم و تغیّر کا امکان نہیں تھا، پھر آپ مزید احتیاط کے طور پر ہر سال رمضان کے مہینے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ دَور کیا کرتے، (صحیح بخاری مع فتح الباری، صفحہ 36 ج_)


حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی آخری الہامی کتاب، قرآنِ مجید کی آیات حضرت جبرائیل علیہ السلام، اللہ پاک کی طرف سے لے کر حاضر ہوتے، وہ آپ کو یاد ہوجاتیں،آپ اپنے صحابہؓ کو بتاتے، انہیں لکھواتے اور دوسروں کو سکھانے کا حکم فرماتے۔

یہ سلسلہ چلتا رہا۔ قرآنی آیات اور سورتیں نازل ہوتی رہیں، ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے جاتے کہ یہ فلاں آیت کے ساتھ ہے، وہ آیات ان کے بعد ہیں۔ یہاں تک کہ تقریباً23 سال کے عرصے میں پورا قرآن مجید نازل ہوگیا۔ تمام آیات کی ترتیب بتادی گئی۔ کئی ایک صحابہؓ کو پوراقرآن حفظ ہوگیا، اورپھر جب پورا قرآنِ مجید مکمل ہوگیا، تو یہ اُس وقت تک الگ الگ جگہوں اور مختلف شکلوں میں، یعنی کاغذ، پتھروں، ہڈیوں اور چمڑے پر لکھا ہوا تھا۔ 

قرآن پاک ابھی ایک جگہ پر یک جا نہیں ہوا تھا کہ اسی دوران مسلمانوں کے لیے ایک بہت تکلیف دہ وقت آپہنچا، جب نبی آخر الزماں، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرماگئے۔ یہ جمعِ قرآن کا پہلا دَور تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کا سن کر نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب نامی شخص نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں اورسادہ لوح لوگوں کو گم راہ کرنے لگا۔ اس موقعے پر خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بروقت اقدام کیا اور اس جھوٹے شخص کے خلاف فیصلہ دے کر جہاد کا اعلان فرمایا۔ اس جہاد میں مسلمانوں کو فتح ملی، لیکن بہت سے صحابہؓ کرام بھی شہید ہوگئے، ایک روایت کے مطابق700صحابہؓ ، جن میں قرآنِ مجید کے حافظ و قاری بھی تھے، اس جہاد میں شہید ہوئے۔

اتنی بڑی تعداد میں حافظ و قاری صحابہ کرام کی شہادت سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بہت آزردہ و پریشان ہوئے، آپ کے دل میں خیال گزرا کہ جنگوں میں قاری وحافظ صحابہ کرام کی شہادتوں کا یہ سلسلہ اگر اسی طرح چلتا رہا، تو قرآن مجید کیسے محفوظ رہے گا؟ یہ سوچ کر آپ خلیفۂ اول، حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاس حاضر ہوئے اور انؓ سے قرآنِ مجید کی آیات ایک جگہ جمع کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے کے حوالے سے بات کی، تو آپؓ نے جمعِ قرآن کی ذمّے داری کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوسونپ دی۔ 

حضرت زیدؓ کو اگرچہ پورا قرآن یاد تھا، وہ زبردست حافظِ قرآن تھے، عہدِ نبوی ؐ میں زیادہ تر وحی آپؓ ہی لکھا کرتے، لیکن پھر بھی آپ دوسرے حفاظ صحابہ کے پاس گئے، انہیں جو یاد ہوتا، یا لکھا ہوا ہوتا، وہ دیکھتے، سُنتے، گواہی لیتے اور اسے محفوظ کرتے، یوں بڑی دیانت داری اور ایمان داری کے ساتھ آپؓ نے تمام قرآنی آیات یک جا کرکے ’’قرآنِ مجید‘‘ کی شکل دے دی۔ اگرچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ سلم کے دَور میں آیات کی ترتیب اور سورتوں کی تفصیل کا کام تو ہوچکا تھا، لیکن وہ سب ایک جگہ پر نہیں تھا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نے ہر سورت کو الگ الگ جمع کرکے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے حوالے کردیا۔ یہ تدوینِ قرآن کا دوسرا دَور تھا۔


وقت گزرتا گیا،یہاں تک کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوگئے۔ آپ بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی ذمّے داری نبھاتے رہے کہ ایک دن حضرت حذیفہ بن یمانؓ جنگ سے واپسی کے بعد آپؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’خلیفہ محترمؓ !اُمّت کو بچائیے، کہیں یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح یہ بھی آپس میں اختلاف نہ کربیٹھیں۔ خلیفہ مکرم!میں دیکھ آیا ہوں، لوگ قرآن میں اختلاف کررہے ہیں، ایک دوسرے کے لہجے کو غلط کہہ رہے ہیں، قرآن کو مختلف طریقوں سے پڑھنےکے سبب اختلاف ہورہا ہے۔‘‘خلیفہ ثالثؓ نے سوچا، دوسرے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا، اور آخر کار یہ طے ہوا کہ قرآن جس لہجے میں نازل ہوا ہے، یعنی لہجہ قریش، اُسی لہجے کے مطابق اسے جمع کیا جائے۔ 

اس کام کے لیے انہوں نے چار صحابہؓ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔ انہیں حضرت حفصہ بنتِ عمر فاروق ؓ کے پاس سے قرآنِ پاک کا نسخہ منگواکردیا گیا اور ساری ہدایات بتادی گئیں۔ مذکورہ کمیٹی میں حضرت زید بن ثابتؓ بھی شامل تھے، جنہوں نے خلیفۂ اوّلؓ کے حکم سے قرآن کو جمع کیا تھا۔ اس کمیٹی نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے کام کیا۔ بڑی احتیاط کے ساتھ تمام ہدایات پر عمل کرتے ہوئے قرآنِ کریم کے نسخے(کاپیز) تیار کیے۔ 

ان کے تیار کردے سات نسخوں میں سے ایک مدینہ منورہ میں رکھا گیا، باقی چھے دنیا کے دوسرے حصّوں میں بھیجے گئے، تاکہ وہاں کے لوگ اسے دیکھتے ہوئے قرآن کریم کے مزید نسخے تیارکروالیں۔ اب تک تمام سورتیں الگ الگ تھیں،پھر تیسری اور آخری تدوین میں ان تمام سورتوں کو ایک ترتیب میں جمع کیا گیا۔ اور تیسرا کام، جو انہوں نے کیا، وہ یہ تھا کہ امّت کو اختلاف سے بچاتے ہوئے اس لہجے میں اسے جمع کیا،جس میں قرآن نازل ہوا تھا، یعنی لہجہ قریش۔ یہ تدوینِ قرآن کا تیسرا اور آخری دَور تھا۔

سورۃ  العنکبوت کی آیت 48 میں اللہ تعالیٰ نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے نزول سے قبل آپ نہ کوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی لکھ سکتے تھے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک پیدا کر سکتے تھے۔ یعنی اگر جناب رسول اللہ ’’امی‘‘ نہ ہوتے اور لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا تھا کہ پڑھے لکھے آدمی ہیں اور کہیں سے یہ حکمت و دانش کا ذخیرہ مل گیا ہے جسے قرآن کی شکل میں پیش کر کے یہ دعویٰ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سرے سے یہ امکان ختم کر دیا اور ایک ’’امی ‘‘شخصیت پر قرآن کریم نازل کر کے اشتباہ کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔

اس کے بعد آیت 49 میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں یہ فرمایا کہ یہ کھلی کھلی آیات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں اور ان آیات کا انکار ظالم لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ قرآن کریم کے اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سینوں میں محفوظ ہو جاتا ہے جو قرآن کریم کی خصوصیات میں سے ہے اور اس کے اعجاز کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ دنیا کی کسی اور کتاب کے حافظ موجود نہیں ہیں۔ اول تو کوئی کتاب یاد ہوتی نہیں اور اگر کوئی کسی کتاب کو یاد کر لے تو اسے زندگی بھر یاد رکھنا کسی کے بس میں نہیں ہوتاجبکہ قرآن کریم نہ صرف آسانی کے ساتھ یاد ہو جاتا ہے بلکہ اسے زندگی بھر یاد رکھنا بھی کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے  اور بہت سے توجہ رکھنے والے حافظ قرآن نہ صرف اسے یاد رکھتے ہیں بلکہ زندگی بھر تراویح اور نوافل میں سنانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں قرآن کریم کے حفاظ کی تعداد نوے لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ قرآن کریم کے معجزہ ہونے کی کھلی اور ناقابل تردید شہادت ہے۔
حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ نے سورۃ  العنکبوت کی انہی آیات کے ضمن میں لکھا ہے کہ قرآن کریم کی اصل جگہ سینہ ہے اور کتابت امر زائد ہے۔ یعنی قرآن کریم کا اصل حق یہ ہے کہ اسے یاد کیا جائے اور اس کی حفاظت کا اصل نظام بھی یہی ہے کہ وہ یاد کیا جاتا ہے اور اتنی بار پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی اور چیز کے خلط ملط ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ کتابت قرآن کریم کی ضروریات میں سے نہیں ہے، اسے لکھا جائے یا نہ لکھا جائے اس کی حفاظت کے نظام میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ کے دور میں قرآن کریم تحریری طور پر کتابی شکل میں موجود نہیں تھا اور اسے تحریری طور پر کتاب کی شکل حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں احتیاطی تدبیر کے طور پر دی گئی۔ اس سے قبل وہ صرف یاد کرنے کی چیز تھی اور ہزاروں صحابہ کرامؓ کے سینوں میں محفوظ تھا۔

 


Post a Comment

Previous Post Next Post