Arbi zuban o adab | Urdu language and literature | Arabic literature in urdu | MA urdu | Urdu assignments | Aiou assignments | Aiou solved assignments
قرآن و حدیث ادب کی کسوٹی
عربی ادب کی تاریخ کے مختلف مراحل میں ادب کی مختلف
تعریفیں کی جاتی رہتی ہیں۔کبھی اس میں اتنی وسعت دی گئی کہ سارے علوم و فنون
کو اس میں جمع کر دیا گیا اور کبھی اس کا دامن اتنا تنگ کر دیا گیا کہ صرف نظم و
نثر کی ایک مخصوص قسم کے امدر سب ادب سمٹ کر رہ گیا۔چنانچہ تاریخ ادب کے ابتدائی
مرحلوں میں ادب سے مراد وہ علوم لیے جاتے تھے جن کا زریعہ سے تہذب نفس کا کام لیا
جائے جس کے نتیجے میں آدمی کے اندر اچھے اخلاق بلند کردار ،بے داغ سیرت اور معاملہ
وبرتاو میں صفائی اور ستھرائی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جدید تعریف میں ادب سے علم
بھی شامل ہو گیا جس میں نحو و صر،بلاغت، معانی ،بیان بدئع وگیرہ کے فنون پیدا ہوئے
اور ان فنون کو بھی ادب میں شامل کر لیا گیا حتٰی کہ نثری اور شاعری سرمایہ بھی
عربی ادب میں شامل ہو گیا
اسلامی عہد
قرآن کی زبان فصیح عربی ہے جسے آج بھی ادبی مقام حاصل
ہے اور باوجودیکہ عربی کے کئی لہجے (مصری، مراکشی، لبنانی، کویتی وغیرہ) پیدا ہو
چکے ہیں، قرآن کی زبان کو ابھی تک عربی کے لیے ایک معیار کی حیثیت حاصل ہے۔ عربی
کے بڑے بڑے عالم جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں قرآن کی فصیح، جامع اور انسانی نفسیات
سے قریب زبان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ اتنی بڑی کتاب ہونے کے باوجود اس میں
کوئی گرامر کی غلطی بھی موجود نہیں۔ بلکہ عربی حروف ابجد کے لحاظ سے اگر ابجد کے
اعداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو قرآن میں ایک جدید تحقیق کے مطابق جو ڈاکٹر راشد
الخلیفہ نے کمپیوٹر (کمپیوٹر) پر کی ہے، قرآن میں باقاعدہ ایک حسابی نظام موجود ہے
جو کسی انسان کے بس میں نہیں۔ قرآن میں قصے بھی ہیں اور تاریخی
واقعات بھی،
فلسفہ بھی ملے گا اور منطق بھی، پیچیدہ سائنسی باتیں بھی ہیں اور عام انسان کی
زندگی گذارنے کے طریقے بھی۔ جب قرآن نازل ہوا اس وقت جو عربی رائج تھی وہ بڑی فصیح
تھی اور اس زمانے میں شعر و ادب کو بڑی اہمیت حاصل تھی لھٰذا یہ ممکن نہیں کہ قرآن
میں کوئی غلطی ہوتی اور دشمن اس کے بارے میں بات نہ کرتے۔ بلکہ قرآن کا دعوہ تھا
کہ اس جیسی ایک آیت بھی بنا کر دکھا دیں مگر اس زمانے کے لوگ جو اپنی زبان کی
فصاحت اور جامعیت کی وجہ سے دوسروں کو عجمی (گوں گا) کہتے تھے، اس بات میں کامیاب
نہ ہو سکے۔
اسلام کی بدولت عربوں کے ذہن ایک زبردست انقلاب سے
دوچار ہوئے۔کم ازکم عہد نبوی و خلافت راشدہ میں شاعری کی پہلی سی گرمی بازاری نہ
رہی ۔وہ تعصب اور تفاخر جو جاہلی شاعری کا محرک تھے اسلام نے ان
کا قلمع قمع کر دیا ۔قرآن اور اس کے شاندار اسلوب کے سامنے شاعروں نے اپنے عجز کا
اعتراف کیا۔ حضور اکرام نے عہد جاہلی کے سب سے نامور شاعر کے بارے میں فرمایا کہ
وہ ایسا شخص ہے جس کو دنیا میں شہرت ناموری ھاصل ہوئی لکین اگلے جہاں میں وہ
فراموش ہوگیا ہے۔ قیامت کے دن شاعروں کا پرچم اس کے ہاتھ میں ہی ہوگا اور
انھیں دوزخ کی راہ دکھائے گا۔ اموی دور کے شاعر فرزدق کا باپ بچپن میں سے حضرت علی
کے باس لے گیا اور کہا کہ میرا یہ بیتا شاعر ہے آپ اس سے کلام سنیں ۔حضرت علی نے
فرمایا اسے قرآن پڑھاو۔
عربی ادب میں اسلامی عہد
پہلی صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے اسلام عرب سے نکل کر
کئی دوسرے علاقوں میں پھیل چکا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی ان علاقوں میں
پہنچ چکی تھی۔مذہبی ضرورت کے تحت عربی کے مطالعے کا رواج ہوا لیکن اس کے ساتھ عربی
کا مطالعہ لسانی اور ادبی نقطہ نظر سے بھئ کیا گیا۔دوسری اقوام کے قبول اسلام سے
عربی زبان کے قواعد مرتب کرنھ کی ضرورت پیش آئی تاکہ وہ عربی صحیح طور پف
سیکھ سکیں اور مذہبی متون کو سمجھ سکیں چونکہ عربی زبان ان کے لیے اجنبی تھی
ان کو صحیح عربی سکھانا صروری تھا اس لیے عربی قواعد کی طرف توجہ دی گئی۔ قرآن
کریم بیان کا ایک معجزہ تھا ۔اعجاز قرآن کے ادبی پہلو پر غور کیا گیا چونکہ
قرآن قریش کے عربی لہجے میں نازل ہواتھا اس لیے قدیم زبان اور شاعری
کے نمونے کو جمع کر کے ان کی تدوین کی گئی اس طرح اس سرمائے کو ضائع ہونے سے بچایا
گیا۔اس کے بعد عربی تصنیف و تالیف اور تنقید مسائل کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کئی
صدویوں تک کئی ملکوں میں جاری رہا۔اس دور کے عربی مصنفین نے مندرجہ ذیل تنقیدی
مسائل و مبا حث پر روشی ڈالی۔
1۔اعجاز قرآن کا ادبی پہلو اور ادبی تنقید کے حوالے سے
اس اعجاز کی دریافت۔
2۔قرآن مجید کا بے مثل اور
انوکھا اسلوب۔
3۔قبل از اسلام کر راویوں کے روایت کردہ متون کی اصالت۔
4۔عہد جاہیلہ اور ابتدائی اسلام کے شعراء
کی درجہ بندی۔
5۔قدیم و جدید شعراء کی خوبیاں اور خامیاں ۔روایت
پسندوں اور جدت پسندوں کے اختلافات۔
6۔ادبی اعجاز میں معنی و اظہار کی اہمیت ادب
العالیہ کی تخلیق کا انحصار موضوع یا معانی پر ہے یا پیرایہ اظہار پر۔
7۔اصل ونقل ۔سرقہ
8۔کلام کی ماہیت اور فصاحت
9۔ادبی شاہکار کے معانی اور جوہربہ اعتبار ساخت ۔دلالت
معنویت
10۔اجزائے کلام اور ان کی تعریف (صنائع وبدائع) تشبیہ و
استعارہ وغیرہ
11۔حریف شعراء کے مقابلے کے معیار
12۔اہم شعری اصناف مثلا قصیدہ ،ہجو اور مرثیہ کے تنقیدی
اصول۔
13۔ادبی فن کے لسانی پہلو۔
ادبی تنقید کے ان مسائل کو مستقبل تصانیف میں بھی زیر
بحث لایا گیا اور بعض اوقات درسی کتب میں ضمنی طور پر ان پر روشنی ڈالی گئی۔اسلوبیاتی
پہلوں پر زیادہ توجہ دی گئی جس نے بالا آخر علم بلاغت کی شکل اختیار کی یہ بھی
قدیم تنقید کی ایک شاخ ہے۔بلاغت کے موضوع صدی ہجری میں بعض یونانی کتب عربی میں
ترجمہ ہو چکی تھیں۔عربی بلاغت پر ان کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔عربی تنقید
صدی ہجری سے لے بارہوں صدی ہجری تک بلاغت کے زیر اثر رہی۔ابن سلام۔جاحظ
،عبداللہ بن المعتز ،قدامہ بن جعفر،ابوھلال العسکری ،الامری قاضی۔عبدالقادر جرجانی
اور ابن رشتیق عربی تنقید کے چند اہم سنگ میل ہیں
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو حدیث کہتے
ہیں۔ قرآن
کے بعد عربی زبان میں فصاحت و بلاغت اور زبان دانی میں آپ امام تھے آپ کی حدیثیں
اور تقریریں عربی ادب کے شہ پارے سمجھی جاتی ہیں۔
آپ کی حدیثوں اور تقریروں نے بھی عربی زبان و ادب کو
نئے الفاظ نئی تعبیریں اور اچھوتا انداز بیان دے کر مالا مال کیا۔
رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے عہد میں چوں کہ مسلمان ایک
طرف نیا دین سیکھنے اور اس کے دشمنوں سے جنگوں میں مشغول رہے۔ ا س لیے نثر میں کوئی
قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ البتہ
خطابت کو رسول اللہ ﷺکے خطبات کی وجہ سے جو آپ خاص طور پر جمعہ اور عیدین کے
موقعوں پر دیتے تھے۔ بڑی
ترقی ہوئی۔ چنانچہ
آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ قادر الکلام اور معجز بیان مقرر تھے۔ آپ کے بعد آپ کے جانشین
خلفائے راشدین میں بھی ملکہ خطابت پوری طرح موجود تھا۔
حضرت علی کو اس صنف میں امتیاز حاصل تھا۔ قرآن کی تلاوت اور رسول
اللہ ﷺ کے فیض صحبت نے آپ کی زبان و بیان کو نکھار دیا تھا۔
چنانچہ آپ بہت قادر الکلام فصیح و بلیغ ادیب و مقرر بن
کر چمکے۔ آپ
نے اپنے عہدِ خلافت میں جو تقریریں کی تھیں وہ خطابت کا اعلیٰ نمونہ ہونے کے ساتھ
ساتھ ادب و فن کا بھی بہترین نمونہ ہیں جواب تک داخل درس ہیں۔ رسول اللہ صلعم اور
خلفائے راشدین کے زمانے میں شعر و شاعری رسول صلعم ایک خاص دعوت لے کر تشریف لائے
تھے۔ اس
دعوت کے اصول اور احکامات عرب جاہلی معاشرے کے معتقدات، رسم و رواج اور عادات کے
بڑی حد تک مخالف تھے شعر و شاعری جو عربوں کی گھٹی میں داخل تھی جس نہج پر زمانۂ
جاہلی میں چل رہی تھی نئی دعوت اور اس نئے معاشرہ کے متقضیات کے منافی تھی اسی لیے
رسل اللہ صلعم نے شعرو شاعری کی ہمت افزائی نہیں کی۔
دوسری طرف نئے مسلمانوں کو دین سیکھنے اور اس کو
پھیلانے سے ہی فرصت نہ تھی کہ وہ دوسری طرف دل و دماغ لگاتے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ
اس زمانہ میں سرزمین عرب سے نئے شعراء نہ ابھرسکے۔
زمانہ جاہلی کے شعرا میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا
ان میں سے بعض نے شعر کہنا بالکل چھوڑ دیا تھا جیسے لبید بن ربیعہ اور مشہور جاہلی
مرثیہ گو شاعر خنسا۔ البتہ
جن شعرا نے مشق سخن جاری رکھی انہوں نے پرانی ریت کو چھوڑ کر اسلامی تعلیمات اور
ارشادات نبوی کے دائرہ میں رہ کر رسول اللہ صلعم کی مدافعت یا آپ کی مدح اور
کُفّارِ مکہ کی ہجو اور اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے شعر کہے۔ شعرا کے اس طبقہ کو زمانہ
جاہلی میں ابھرا اور بعد میں مسلمان ہوا
’’مخضر مین ‘‘ یعنی
دو زمانے پائے ہوئے (جاہلیت اور اسلام) شعرا کہتے ہیں۔
ان میں سب سے زیادہ مشہور حضرت حسان بن ثابت ہیں جو
رسول اللہ صلعم کے خاص شاعر تھے اور آپ کی طرف سے مکہ والوں کو جواب دیتے تھے۔ اور دوسرے کعب بن زہیر
ہیں۔ مخضرین
میں ایک اور شاعر الحطیۃٔ بھی ہے جس نے جاہلی رنگ میں ہجو گوئی میں کمال پیدا کیا
تھا۔ اور
جس نے شرفا کے علاوہ اپنے ماں باپ اور حد تو یہ ہے کہ خود اپنی ہجو لکھی ہے۔ خلفائے راشدین کے زمانے
میں بھی شعر و شاعری کی یہی کیفیت رہی۔ البتہ
حضرت عثمان کے قتل کے بعد دینی اور سیاسی فرقوں کے پیدا ہونے اور ان کی آپس کی
کشمکش سے فنِ خطابت کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی ترقی ہوئی جس کے اثرات کھل کر عہد
بنی امیہ میں سامنے آئے اور نظم میں نت نئی تعبیریں آئیں اور نئی راہیں کھلیں۔
Post a Comment