Facebook SDK

 

امیر خسروکی اردوزبان و  ادب کے لیے خدمات

امیر خسرو کی نثری تصنیفات کا جائزہ  |  امیر خسروکی اردوزبان و  ادب کے لیے خدمات

امیر خسرو اردوزبان کے اولین بنیاد گذاروں میں سے ایک ہیں، جن کی گوناگوں صفات اور علمی خدمات کا زمانہ معترف ہے۔امیر خسرو علم وادب کی ایک ماےۂ ناز شخصیت ہیں کہ ان کی ہمہ گیریت کسی دوسرے شاعر یا ادیب میں نہیں۔اس قدر مختلف اور گوناگوں اوصاف کے حامل کہ ایشا کی خاک نے بھی ہزاروں برس کی مدت میں دوچار ہی پیداکیے ہونگے۔امیر خسرو نے پانچ اور بعض محققین کے مطابق سات بادشاہوں کا زمانہ دیکھا،پانچ تاریخی مثنویاں لکھیں اور پانچ دیوان مرتب کیے۔مختلف مضامین پر مشتمل پانچ مثنویوں کا خمسہ مکمل کیا جس میں اخلاقی اور افسانوی مضامین اہم حیثیت کے حامل ہیں۔یہ خمسہ ۱۷۹۰۰؍اشعار پر مشتمل ہے۔نثر میں بھی پانچ رسائل کے دفتر مرتب کیے،انھیں ''رسائل الاعجاز' کہاجاتاہے۔اس کے علاوہ دوکتابیں ''خزائن الفتوح'' اور افضل الفوائد'' بھی آپ کا نثری کارنامہ ہیں۔
امیر خسرو کو اپنے زمانے کے متعدد علوم پر دسترس حاصل تھی۔انھوں نے بیک وقت پانچ زبانوں میں طبع آزمائی کی۔امیر خسرو فارسی زبان پر دستگاہ کامل رکھنے کے ساتھ عربی، ترکی، سنسکرت، ہندی اور بنگالی زبانوں پر بھی قدرت رکھتے تھے،ہندی اور اردو زبان و ادب کی تاریخ میں بلا اختلاف ان کو اردو زبان کے بانیوں میں شمار کیاجاتاہے۔ماہرانِ موسیقی نے امیر خسرو کو کئی آلاتِ موسیقی اور راگ راگنیوں کا موجد بھی قرار دیاہے۔امیر خسرو کی شحصیت بقول خالد مختار یہ تھی :
''
امیر خسرو کو ان اربابِ کمال میں شمار کیاجاسکتاہے جن کو عبقری کہا جاتا ہے، وہ ایک عظیم قصیدہ گو، ایک عظیم مثنوی نگار، ایک عظیم غزل گو، ایک عظیم نثر نگار، ایک عظیم صوفی اور ایک عظیم ماہرفنِ موسیقی تھے۔وہ صوفی کی حیثیت سے فنافی اللہ ، ندیم کی حیثیت سے ارسطوئے زمانہ، عالم کی حیثیت سے متبحر علامہ، ماہر موسیقی کی حیثیت سے امام المجتہد، مؤرخ کی حیثیت سے بے نظیر محقق اور شاعر کی حیثیت سے ملک الشعرا تھے، ان کی غزلوں میں سوزوگداز، عشق ومحبت ، عجزونیاز، سادگی، بے تکلفی ، شوخی، تصوف، ہم آہنگی، موسیقی، نزاکت اور تناسب جیسے عناصر کوکو ٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ان کے کمال کا ہر دامن نہایت وسیع اور اپنے بیان میں نہایت دلپذیر ہے۔''(امیر خسرو: افکار وخیالات وفکر وفن ص ۸)
امیرخسرو کے متعلق مرزاغالب عود ہندی میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے سخنوروں میں امیر خسروکے سوا کوئی استاد مسلم الثبوت نہیں ہوا۔امیر خسرو اپنے فارسی کلام میں جگہ جگہ ہندی کے الفاظ اور محاورات استعمال کرتے ہیں۔انھوں نے کہ مکرنیاں ، انمل، دوسخنے اور پہیلیاں تمام تربول چال اور روزمرہ کی زبان میں لکھی ہیں ۔یہ بات مسلم ہے کہ اردو کا قدیم ترین نام ہندی یا ہندوی ہے۔
اردو کی ابتدا امیر خسرو سے پہلے مسعود سعدسلمان سے ہوتی ہے۔مسعود سلمان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ اس نے تین دیوانِ یادگار چھوڑے ، جن میں سے ایک عربی میں تھا ، ایک فارسی میں اور ایک ہندی میں ،اگرچہ اب صرف فارسی دیوان موجود ہے اور باقی دودیوان نایاب ہیں۔کوئی بھی زبان جذب وقبول اور معاشرے وسماج میں تبدیلی کے ذریعہ ہی ترقی کرتی ہے، وہ زبان جو اب تک ہندوی کلچر کی علامت تھی، مسلمانوں کی آمد سے ،اس میں عربی ، ایرانی کلچر کی روح بھی شامل ہوگئی ۔عربی ، فارسی اور ترکی کے الفاظ فرسودہ اورغیر ضروری پراکرت وسنسکرت الفاظ کی جگہ لینے لگے، بعد میں سینکڑوں پرتگالی اور انگریزی الفاظ بھی اس زبان کا حصہ بن گئے۔ابھی یہ زبان ترقی کے مراحل میں تھی مگر اس قدر توانا نہ ہوئی تھی کہ اس میں ادب پارے وجود میں آئیں۔یہ زبان ہندی یا ہندوی ہر طرف بولی جارہی تھی، رابطے کی زبان تھی، اسی وجہ سے اس زمانے کے فارسی مصنفین کی کتابوں میں اس زبان کے الفاظ اور محاورے مل جاتے ہیں ، خود فارسی شاعری کا آغاز ہندوستان میں عہدِ غزنوی میں ہوا۔دہلی فتح ہونے تک لاہور وغیرہ مرکز رہے ، ابوالفرج رونی اس زمانے کا بڑا شاعر ہے۔اسی کا ہم عصر مسعود سعد سلمان بھی لاہور میں پیدا ہوا۔ دہلی فتح ہوئی تو پھر یہ مرکزِ علم وادب بن گئی ۔امیر خسرو سے قبل تاج الدین، شہاب الدین عرف شہاب مہرہ اور عمید الدین قابل شعرا گزرے ہیں۔ان شعرا ء کے جانشینوں میں امیر خسرو تھے جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ پورے ہندوستان کو ان پر ناز ہے۔اس زمانے کے فارسی اہلِ قلم نے اپنی تصانیف میں ہندی زبان کے الفاظ بکثرت استعمال کیے ہیں۔ابوالفرج ، حکیم سنائی ، منہاج سراج الدین، ضیا ء الدین برنی، سید محمد بن سید مبارک کرمانی اور امیر خسرو وغیرہ نے اپنی تصانیف میں اس زبان کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔


مذکورہ بالا شخصیات کی تصانیف فارسی زبان میں تھیں، مگر ہندی یا ہندوی زبان کے الفاظ بھی ان کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔امیر خسرو سے پہلے کسی شاعر یا ادیب کا کلام ہندی یا ہندوی زبان میں نہیں ملتا ہے۔ امیر خسرو سے پہلے مسعود سعد سلمان کے دیوان میں ہندوی زبان کا تذکرہ تو ضرورملتاہے مگر ان کا یہ دیوان ناپید ہے، امیرخسرو کے زمانے میں اردو زبان بالکل ابتدائی شکل میں تھی، امیر خسرو اردو زبان وادب کے شاعرِاول ہیں جن کی شاعری میں اردو زبان کے الفاظ ومحاورے پائے جاتے ہیں اور امیر خسرو کی نثری تصانیف میں بھی اردو زبان کے الفاظ ومحاورات بکثرت موجودہیں۔
امیر خسرو کی شعری و نثری تصانیف کتنی ہیں ؟ یہ بتانا مشکل ہے ۔کیونکہ مختلف کتابوں میں تصانیف کے متعلق تعداد مختلف ہیں۔ ضیاء الدین برنی نے لکھا ہے کہ ان کی تصانیف اتنی تھیں کہ ان سے ایک کتب خانہ بن سکتا تھا،ایک دوسرے مصنف نے ان کی تصانیف کی تعداد ۹۹ بتائی ہے اور بعض نے ۱۹۹؍ لکھی ہے، حقیقی تعداد کا علم خداہی بہتر جانتا ہے۔پروفیسر وحید مرزا نے جو نتیجہ نکالا ہے، وہ یہ ہے کہ ''اس طرح صرف اکیس ایسی تصانیف رہ جاتی ہیں جو یقین کے ساتھ امیر خسرو کی طرف منسوب کی جاسکتی ہیں اور یہ سب کی سب اس وقت موجود ہیں۔''(امیر خسرو: ڈاکٹر وحید مرزا ، ص ۱۴۶)
امیر خسرو کی فارسی شاعری زیادہ مشہور ومعروف ہے اور انھیں زبان وادب کی تاریخ میں عموماً شاعر ہی کے حوالے سے جاناجاتاہے اور ان کی شاعری میں ہندی یا ہندوی زبان کے الفاظ ،محاورے اور کہاوتوں کو اجاگر کرکے انھیں اردو زبان وادب کا اولین معمار اور ہندوی زبان کا نقاش اول ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بات حقیقت بھی ہے کہ کثیر مقدار میں ان کے فارسی کلام کے مجموعوں میں مخلوط ہندوی کلام بھی ملتا ہے۔امیر خسرو کے شعری کارنامے زیاہے ہیں ،اسی لیے اس کی طرف اکثر مصنفین اور محققین نے توجہ کی ہے ،مگر خسرو کی تصنایف میں نثری کتابیں بھی شامل ہیں۔نثر کی تین کتابیں بلا اختلاف امیر خسرو کی تصنیفات شمار کی جاتی ہیں ۔ ان میں پہلی کتاب ''خزائن الفتوح'' ہے۔بقیہ دو کتابوں کے نام ''اعجاز خسروی '' یا ''رسائل الاعجاز '' اور ''افضل الفوائد'' ہیں۔خزائن الفتوح کو ہی تاریخ علمائی کے نام سے بھی جاناجاتاہے۔

خزائن الفتوح یا تاریخ علائی

''خزائن الفتوح یا تاریخ علائی '' اس کتاب کو امیر خسرو نے ۷۱۱ھ میں پورا کیا ۔یہ کتاب امیر خسرو کی نثر نگاری کے میدان میں پہلی کوشش تھی۔اس سے پہلے انھوں نے اپنے دواوین کا دیباچہ نثر میں لکھا تھا،لیکن نثر میں ان کی باضابطہ پہلی تصنیف ''خزائن الفتوح'' ہے۔یہ کتاب سلطان علاؤ الدین خلجی کی فتوحات کی بڑی دلچسپ اور مستند تاریخ ہے۔مستند اس لیے ہے کہ مختلف معرکوں ہی کی نہیں بلکہ ان سے متعلق واقعات کی تاریخیں بھی درج ہیں۔لشکر کا کوچ کرنا، سفر میں قیام، حملہ ، محاصرہ اور فتح سب کی تاریخیں ملتی ہیں۔اس کتاب میں ۶۹۵ھ سے ۷۱۱ھ تک کے واقعات درج ہیں۔ اس کتاب میں جنوبی ہندوستان کی تہذیب ومعاشرت اور فتوحاتِ دکن سے متعلق اہم معلومات ملتی ہیں ۔شمالی ہند کے حالات سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔امیر خسرو نے یہ کتاب گرچہ تاریخی حالات پر لکھی ہے مگر وہ بنیادی طورپر شاعر ا ورادیب تھے،اسی وجہ سے اس کتاب میں ادبی زبان اور اندازِ بیان اختیار کیا ہے مگر تاریخی واقعات کی صحت وترتیب پر بھی آنچ نہیں آنے دی ہے۔اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ علاؤالدین خلجی سے متعلق اس کے عہد میں لکھی جانے والی یہ واحد کتاب ہے۔اس کتاب کے چند نسخے ہی ملتے ہیں۔ علی گڑھ سے ''خزائن الفتوح'' کا متن شائع ہوچکا ہے۔اس کتاب میں ہندوی زبان کے الفاظ ملتے ہیں ۔ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ خزائن الفتوح میں بیڑہ، تنبول، دھانک، گھٹی، بیسٹھ، مارمار اور رائے جیسے الفاظ ملتے ہیں۔

اخبار خسروی یا رسائل الاعجاز

امیر خسرو کی دوسری تصنیف ''اخبار خسروی یا رسائل الاعجاز پانچ رسالوں پر مشتمل ہے۔اس ضخیم تصنیف کی تکمیل ۷۱۹ھ میں ہوئی۔یہ کتاب فارسی نثر کا ایک بہترین اور مزین نمونہ ہے۔اس میں صنائع وبدائع کی کثرت ہے۔پانچواں رسالہ امیرخسرو کے ابتدائی عمر میں لکھے گئے خطوط پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں خطوط کے علاوہ مختلف بادشاہوں کے مضامین بھی شامل ہیں۔مولانا شہاب الدین کے نام دومکمل خطوط ہیں۔ایک خط عربی زبان میں ہے اور دوسرا فارسی میں ہے۔اس کے علاوہ اس کتاب میں ہندوستانی موسیقی اور نامور موسیقاروں کا تذکرہ بھی ہے۔علم نجوم، طبعیات، طب، فقہ اور مختلف کھیلو ں کا بھی ذکر ہے۔امیر خسرو نے اس کتاب میں نئی تشبیہیں ، نئے استعارے اور نئے صفات استعمال کیے ہیں۔جو بقول ان کے یہ سب ان کی ایجاد ہیں۔اس کتاب میں عربی اور فارسی کے جتنے بھی اشعار استعمال ہوتے ہیں،وہ سب خسرو کے ہی ہیں۔امیر خسرو کی یہ نثری تصنیف اس عہد کی تاریخی، سماجی،علمی وادبی حالات ومیلانات کا ایک اہم ترین خزانہ ہے۔امیر خسرو نے اس کتاب میں فارسی نثر کے ان اسلوبو ں کا ذکر کیا ہے جو اس زمانے میں رائج تھے۔ امیر خسرو کی یہ تصنیف اردو زبان کی ابتدا میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔امیر خسرونے اس کتاب میں اردو زبان کی ابتدائی شکل ہندوی زبان کے الفاظ کو خوب استعمال کیاہے ۔ڈاکٹر کرشن بھالوک لکھتے ہیں:'' ان کی تخلیق اعجازِ خسروی میں ایسے لُہار ہیں جو کہ کاریگری میں کمال رکھتے ہیں،اور ایسی لچک دار تلوار بناتے ہیں ، گویا خاموش ماحول میں گھاس کی پتیاں لہرارہی ہوں ، اسی طرح سوزن گرہیں ، جو اپنی نازک سوئیوں سے طلائی (سنہرے) گل بوٹے کھلایا کرتے ہیں۔''(اردو دنیا، مارچ، ۲۰۱۴، ص ۲۱۔۲۰)
امیر خسرو کی تصنیف ''اعجاز خسروی'' کا تعارف کراتے ہوئے زبان ہندی کے متعلق عرش ملسیانی لکھتے ہیں، ''ازتیغِ ہندی برّاں تراست '' ۔فارسی زبان کو ہندی سے قریب لانے کے لیے وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ اس میں عربی الفاظ زیادہ استعمال نہ کیے جائیں۔(امیر خسرو،عہد ،فن اور شخصیت ، عرش ملسیانی، ۹۴)
اعجازِ خسروی کی تکمیل کے وقت امیر خسرو کی عمر تقریباً ۷۰ ؍سال تھی۔ یہ کتاب نول کشور پریس میں دومرتبہ چھپی۔اس کے قلمی نسخے بکثرت موجود ہیں۔

افضل الفوائد

''افضل الفوائد'' امیرخسرو کی تیسری نثری تصنیف ہے جو خواجہ نظام الدین اولیا کے حالات وکوائف اور ملفوظات پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب میں امیر خسرو نے بہت ہی سادہ وسلیس زبان استعمال کی ہے، اس لیے کہ صوفیا کا مقصد دین کی تبلیغ اور لوگوں کی ہدایت ہوتا ہے۔کیونکہ وہ لوگ اپنی گفتگو میں نہایت سادہ الفاظ اور موثر زبان استعمال کرتے ہیں جسے عالم وجاہل، خاص وعام ہر ایک سمجھ لے۔یہ کتاب اس زمانے میں بولی جانے والی فارسی نثر کا نمونہ ہے۔اس کتاب میں ضمنی طورپر خواجہ نظام الدین اولیا کی خانقاہ کے کچھ حالات اور ان لوگوں کا تذکرہ بھی موجود ہے جو اکثر وبیشتر خواجہ صاحب کے گردو پیش جمع رہا کرتے تھے۔افضل الفوائد '' ۱۳۰۴ھ میں دہلی سے شائع ہوچکی ہے۔
افضل الفوائد کے متعلق ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں کہ امیر خسرو ۷۱۳ھ (۱۳۱۳ء)میں خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید ہوئے، اور ''افضل الفواد'' میں خواجہ نظام الدین اولیا (م ۷۲۵ھ؍۱۳۲۵) کے ملفوظات بزبانِ فارسی جمع کیے۔ان ملفوظات میں کئی جگہ اردو کے الفاظ بھی بے ساختگی وبے تکلفی کے اتھ حضرت نظام الدین الاولیا کی زبان پر آگئے ہیں ۔مثلاً ایک جگہ لکھا ہے کہ'
''
باہرۂ چند از طعام شب درپیش سلطان آورد''
یا ایک اور جگہ اس طرح لکھا ہے کہ:
''
بعد ازاں خواجہ چشم پُر آب گرد بارہا بگریست''
تاریخ ادب اردو جلد اول ، ۳۷، جمیل جالبی)
امیر خسرو کی شخصیت ہشت پہلو تھی۔وہ اپنے زمانے کے عظیم انسان تھے، زبان وادب میں طوطئ ہند کے لقب سے یاد کیے گئے ۔ آپ کی علمی قابلیت ، عظیم شخصیت اور گراں قدر خدمات کا اعتراف مؤرخین ، محققین اور نقادوں نے دل کھول کر کیا ہے اور آپ کا تذکرہ بلند الفاظ میں کرتے ہیں۔امیر خسرو کی شخصیت کے متعلق سعید احمد مارہروی لکھتے ہیں کہ اس باکمال کی سوانح عمری میں جوعلمی اور اخلاقی خوبیوں سے مرصع ہے۔یہ امر بھی نہایت دلچسپ ہے کہ اقلیم تصنیف وتالیف میں ہماری زبان اردو کی عالیشان عمارت کا بنیادی پتھر اسی صاحبِ کمال کے مبارک ہاتھ سے رکھا گیا، (امیر خسرو، شیخ سلیم احمد ، ص ۱۱۹)
شیخ سلیم احمد اپنے اختتامیہ میں امیر خسرو کے متعلق اس طرح لکھتے ہیں:
''
اردو زبان کی ابتدا وآغاز کے ڈانڈے ہم ان کی ہندوی شاعری اور نثری کتابوں سے ہی ملاتے ہیں۔''(ص ۴۳۸)
مولانا سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ امیر خسرونے فارسی اور بھاشا کی آمیزش سے ہندوستان میں ایک نئی زبان اور نیا تمدنی ذوق پیداکرنے کی کوشش کی۔اور سب سے پہلے اس ملی جلی تہذیب شاعری کی بنیاد رکھی(امیر خسرو شخصیت ، افکار وخیالات ، فکروفن، ص ۳۸، شاہد مختار)
اور ڈاکٹر جمیل جالبی اس طرح رقم طراز ہیں کہ:
''
امیر خسرو اردو زبان وادب کے شاعرِاول ہیں جن کی مٹھاس آج بھی زبان میں شہد گھول رہی ہے۔امیر خسرو دو تہذیبوں کے امتزاج کے وہ گلِ نور س ہیں جو ابھرتی، پھیلتی تہذیبوں کے ایسے ہی موڑ پر ظہور میں آگے آتے ہیں اور خود تہذیب کی علامت بن جاتے ہیں۔امیر خسرو ہند، مسلم ثقافت کی وہ زندہ علامت ہیں کہ رہتی دنیا تک وہ اس تہذیب کے اولین نمائندے کی حیثیت سے یادگار رہیں گے۔انھوں نے نہ صرف اپنے زمانے کے بلکہ آئندہ دور کے تہذیبی دھاروں کو بھی متاثر کیا، اور ان کا اردو کلام ایک تبرک کی حیثیت رکھتا ہے۔''(تاریخ ادب اردو جلداول، ص ۳۴،از ڈاکٹر جمیل جالبی)
امیرخسرو اردو زبان کے عظیم محسن ہیں جن کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔امیر خسرو کی شعری خدمات پر زیادہ کام ہوا ہے جب کہ ان کی نثری خدمات بھی اہم ہیں اور ان کی نثری تصانیف میں اردو زبان کے اولین نقوش اور بنیادی نشانات موجود ہیں جن کا ایک مختصر جائزہ اس مقالے میں پیش کیا گیا ہے۔
MD. Shadab
Research Scholar,
Department of Urdu
Univirsity of Delhi


Post a Comment

Previous Post Next Post