Facebook SDK

  پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان  تا حال 

اردو غزل کا جدید دور

اردو غزل کے پاکستانی ادوار

پاکستان میں اردو غزل کا آغاز و ارتقاء

جدید اردو غزل کا ارتقاء

پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان تا حال

Part-2

جدید اردو غزل کا ارتقاء

جدید اردو غزل کا ارتقاء

فیض نے اردو غزل کی وسیع روایت سے استفادہ کرتے ہوئے غزل کو ایک نئی شائستگی اور جمالیاتی آگہی سے ہم کنار کیا۔ فیض کے ہاں حسرتِ تعمیر کے کرب کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خواب نمایاں ہیں۔ ایم ڈی تاثیر معاملاتِ فراق و وصال کو عصری آگہی کے راستے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے ہاں انسانی عظمت کا برملا اظہار ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو موضوعاتی تنوع سے مالا مال کیا۔ سراج الدین ظفر اردو غزل کی تاریخ میں ایک منفرد اور جداگانہ اسلوب کے حامل غزل گو ہیں۔ سراج الدین ظفر کو جدید کلاسیک کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ سید عابد علی عابد حسنِ الفاظ و حسنِ تراکیب کو مضمون آفرینی پر فوقیت دیتے ہیں۔ صوفی تبسم معاملاتِ حسن و عشق کے روایتی مضامین کے شاعر ہیں۔ ان کے طرزِ بیان میں سادگی اور سلاست نمایاں ہیں۔ابنِ انشا نے طویل بحروں میں ہندی ڈکشن سے مملو غزلیں کہیں۔ان کی غزلوں کا آہنگ کہیں کہیں گیت سے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ زبان و بیان اور غزل کے تہذیبی پہلو سے مکمل آگاہی اوراپنے عہد کی نباضی شان الحق حقی کی غزل کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز رکھتی ہے:

ربط ہے حسن و عشق میں باہم

ایک دریا کے دو کنارے ہیں

ایم ڈی تاثیر

جانیے کیا کیا مدارج اور بھی کرنے ہیں طے

ہم ابھی ذہنِ خداوندی میں اک اندیشہ ہیں

سراج الدین ظفر

بوئے خوں آتی ہے صحرائے تمنا سے مجھے

کھیلتا ہوں دلِ وحشی کا شکار آج کی رات

سید عابد علی عابد

کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں

ایک دو آنسو نکل کر رہ گئے

صوفی تبسم

ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ آرام کہاں

آج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں

ابنِ انشا

یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے

صبح کا ذکر نہیں صبح تو ہو جاتی ہے

شان الحق حقی


محب عارفی نے اردو غزل کو سائنسی طرزِ فکر سے آشنا کیا۔ روایتی فلسفہ کی جگہ سائنسی دریافتوں پر استوار فلسفہ کو اہمیت دی۔ انھوں نے شاعری میں زندگی کے بنیادی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی۔عزیز حامد مدنی کی غزل جدید معاصر علوم سے آگہی اور ایک سلجھے ہوئے ناسٹلجیائی کرب کی ترجمان ہے۔ مدنی کی شاعری میں موجود کرب ان کے عہد کا کرب ہے۔ وہ اپنے عہد کی جملہ سچائیوں کو اپنی غزل میں جگہ دیتے ہوئے ایک توانا روایت کو تو سیع دیتے نظر آتے ہیں۔ مدنی کی غزل اپنے وقت کی جدید ترین غزل ہے جس کی جانب ناقدین تاحال متوجہ نہیں ہوئے۔

خوش ہے کہ جو ٹوٹی ہے آخر کوئی شے ہو گی

خود میں نظر آتا ہے شیشے کو جو بال اپنا

محب عارفی

لکھی ہوئی جو تباہی تھی اُس سے کیا جاتا

ہوا کے رُخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا

عزیز حامد مدنی

سادگی بیان، رواں دواں بحریں اور کھنکھناتی ردیفیں، برجستگی و بے ساختگی عبدالحمید عدم کی غزل کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ مجید امجد نے نسبتاً کم لیکن متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی پختہ غزلیں کہیں۔ احسان دانش اگرچہ نظم کے ذریعے بندۂ مزور کے تلخ روز و شب کی عکاسی کے باعث شاعر مزدور کہلائے اور تقسیمِ ہندوستان سے قبل اپنا شعری تشخص قائم کر چکے تھے ۔ اپنی منفرد نظم گوئی کے ساتھ ساتھ غزل میں وہ اپنے ہم عصروں کے رنگ و آہنگ کے ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں، البتہ تقسیم کے بعد اُن کی غزل میں جدتِ آہنگ کے تیور بھی دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ان کی غزل کو بجا طور پر رومانی غزل کہا جا سکتا ہے۔ میرا جی نے یوں تو بہت کم غزلیں کہیں لیکن ان میں گیتوں کی سی چاشنی ہے۔ مختار صدیقی معاملاتِ غزل میں متاثرینِ میر میں گنے جاتے ہیں۔ انھوں نے اردو غزل میں ہندی ڈکشن اور طویل بحروں کے استعمال کو رواج دینے کی کوشش کی ۔ لیکن بے جا تصنع اور جذبات کے اظہار میں پینترے بازی کے شوق نے ان کے اشعار کو تاثیر و تغزل جیسے اوصاف سے محروم کر دیا۔ بیدل حیدری ایک قادرلکلام شاعر ہیں، ان کے ہاں معاشی و سماجی ناہمواریوں کے شکار لوگوں کے احساسات کی ترجمانی نمایاں ہے ۔ قیوم نظرنے بھی کم لیکن معیاری غزلیں کہیں۔ باقی صدیقی نے مختصر بحروں میں گہرائی و گیرائی کے حامل شعر کہے۔ ان کی ذاتی زندگی کی تلخیاں طرزِ بیان میں طنزیہ روپ دھارتی ہیں:

اے غم زندگی نہ ہو ناراض

مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

عبدالحمید عدم

جب آسماں پہ خداوں کے لفظ ٹکراتے

میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جلا رکھتا

مجید امجد

رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول

جو پاوں پڑ رہا تھا بڑے قاعدے میں تھا

احسان دانش

ایک ٹھکانہ آگے آگے پیچھے ایک مسافر ہے

چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے منزل کا اعلان کریں

میرا جی

ہاں شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے

وہ بے رخی کہ ناز کا تھی جو بھرم، گئی

مختار صدیقی

بیدل لباسِ زیست بڑا دیدہ زیب تھا

اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا

بیدل حیدری

تو بھی کہہ دے جو تیرے دل میں ہے

سن رہا ہوں میں ہر اناپ شناپ

قیوم نظر

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے

اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

باقی صدیقی


شیر افضل جعفری کے شعری اسلوب کی تشکیل لہندا، پنجابی ، سرائیکی اور اردو الفاظ کی باہمی آمیزش سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ روش نہ تو آگے بڑھ سکی اور نہ ہی پذیرائی حاصل کر سکی کہ ایسا قاری کہاں سے دستیاب ہو جو ان تمام زبانوں پر دسترس رکھتا ہو۔ پھر مختلف زبانوں کے الفاظ کی زبردستی بھرتی سے غزل کا اصل رس کہیں راستے ہی میں رہ گیا۔ یوں اسے بھی اردو غزل میں ایک ناکام تجربہ کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔ البتہ مختلف زبانوں کی آمیزش کے باوجود اُن سے کہیں موثر اپنے نابغانہ اندازِ فکر سے عبدالعزیز خالد کی غزل بھی ظہور کرتی نظر آتی ہے۔ اُن کی غزلیں زیادہ تر غیر مقفع ہیں جو قاری پر قدرے بوجھل پن کا احساس لیے ہوئے ہیں مگر ان کا فکری معیار اپنے بہت سے ہم عصروں سے منفرد و ممتاز ہے جو اُن کے معدودے چند پڑھنے والوں پر لطافتِ طبع سے زیادہ بلاغتِ معنوی کا باعث ہے:

گوری چٹی دھوپ نہ جوبن پر اترائے

دن کے پیچھے کالی کالی رات لگی ہے

شیر افضل جعفری

ہر بات ہے خالد کی زمانے سے نرالی

باشندہ ہے شاید کسی دنیائے دگر کا

عبدالعزیز خالد

قتیل شفائی کو اپنے وقت میں بہت اہمیت دی گئی، ان کے ہاں موضوعات کے تنوع کے حوالہ سے کیا کیا کچھ نہیں گیا، لیکن ان کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ ان تمام دعووں کی کلیتاً نفی کرتا نظر آتا ہے۔ روایتی پیرایہ میں معاملات حسن و عشق کا گھسا پٹا انداز بیان اور سطحی پن ان کی غزل کو ان کے گیت سے اوپر نہیں اٹھنے دیتا۔ اسی طرح طفیل ہوشیارپوری کی غزل سراسر روایتی ہے اور محض نغمگی کا تاثر پیدا کرتی ہے:

کچھ کہہ رہی ہیں آپ کے سینے کی دھڑکنیں

میرا نہیں تو دل کا کہا مان جائیے

قتیل شفائی

ہم اپنے آنسووں کا صلہ کس سے مانگتے

دنیا تھی اشک بار، ہمیں کون پوچھتا

طفیل ہوشیارپوری

سیف الدین سیف کی غزل کم و بیش تمام محاسنِ شعری کا مرقع ہے۔ ظہیر کاشمیری کی غزل ان کے سماجی شعور کی عکاس ہے۔انجم رومانی کی غزل کو دگرگوں عصری صوِرت حال کا ردِعمل کہا جا سکتا ہے۔ کہیں کہیں فلسفیانہ اندازِ فکر بھی ملتا ہے۔ جعفر شیرازی نے بہت غزلیں کہیں، مجید امجد جیسے بڑے شاعر نے بھی غالباً تعلق خاطر نبھاتے ہوئے ان کے شعری محاسن کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی لیکن مجال ہے جو ضخیم کلیات میں سے کوئی شعر اس قابل نکل آئے کہ اسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔البتہ اُن کے معاصر اور ہم شہر غزل گو شاعر گوہر ہوشیارپوری اور بشیر احمد بشیر کی غزل کو عصری تناظر میں خاص اہمیت کے ساتھ پرکھا جا سکتا ہے۔ شہاب دہلوی کے ہاں کہیں کہیں روزمرہ کی چاشنی اور زبان وبیان کا احسن استعمال انھیں غزل کی وسیع روایت سے جوڑتا ہے۔عارف عبدالمتین کی غزل کی اساس رومانویت اور حقیقت کے امتزاج پر ہے:

موت دشوار، زندگی مشکل

اب کوئی کام اپنے بس میں نہیں

سیف الدین سیف

نہیں نام و نشاں سائے کا لیکن یار بیٹھے ہیں

اُگے شاید زمیں سے خود بہ خود دیوار، بیٹھے ہیں

انجم رومانی

ملا تو سارے سفر کی تکان اتار گیا

وہ اجنبی وہ مسافر نواز کیسا ہے

گوہر ہوشیارپوری

ہر ایک سمت صحیفے کھلے پڑے تھے یہاں

ترا نصیب کہ تو حرف آشنا نہ ہوا

بشیر احمد بشیر

اللہ ری بے بسی مرے عہدِ زوال کی

گھر جل کے راکھ ہو گیا، میں دیکھتا رہا

شہاب دہلوی

صرف ایک ثبوت اپنی وفا کا ہے مرے پاس

میں اپنی نگاہوں میں گنہگار نہیں ہوں

عارف عبدالمتین

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔

<<<Click below for part 1 to part 3 >>>

Part 1

Part 2

Part 3 

Part 4

Post a Comment

Previous Post Next Post