Facebook SDK

 پاکستان میں اردو ادب کے ستر سال

اردو ادب کا پاکستانی دور

پاکستانی شعراء کا مختصر تعارف

پاکستانی ادب سے کیا مراد ہے؟

قیام پاکستان کے بعد اردو شاعری

اردو غزل کا پاکستانی دور

پاکستان میں اردو زبان و ادب || قیام پاکستان کے بعد اردو غزل


پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان  تا حال

۔1960 کے بعد پاکستان میں اردو غزل کے حوالے سے انحراف کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام، معاشرتی ناانصافیوں اور سب سے بڑھ کر ایک نئی سلطنت۔۔۔۔۔۔۔ مسلم سلطنت کے قیام سے وابستہ امیدوں کے دم توڑ جانے سے ادب میں بھی شکست و ریخت کا عمل دکھائی دینے لگا۔ بڑوں کے اعمال پر تنقید نے قطعی تردید کے لیے راستے ہموار کیے۔ غزل میں ایک جھنجھلاہٹ در آئی۔ روایت سے کلیتاً انکار، غزل میں اجنبی یا یوں کہیے کہ غیر مانوس قسم کے تجربات سامنے آنا شروع ہوئے۔ مختصراً یہ کہاجا سکتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں کہی جانے والی غزل ہماری تب تک کی اردو غزل کے ردِعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دور کا سب سے اہم نام سلیم احمد کا ہے۔ ان کے شعری مجموعہ ’’بیاض‘‘ کی اشاعت مروجہ شعری اسلوب سے بغاوت کا اعلان تھا۔ بقول سلیم احمد یہ ایک شعوری کاوش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ نئےراستے تلاش کرنے کی کاوش، کم یا غیر مستعمل الفاظ اوراپنے عصر ی مسائل کے اظہار کو غزل میں کھپانے کی کوشش۔ سلیم احمد کی غزل جدید انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خصوصاً شہری زندگی کی عکاسی کرتی ہے ۔ جنسی معاملات کا بے دھڑک بیان سلیم احمد کی شاعری کی ایک اور جہت ہے:

آکے اب جنگل میں یہ عقدہ کھلا

بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ

نہ پوچھو عقل کی، چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر

کسی شے کا اثر ہوتا نہیں کم بخت موٹی پر

بلندی کی طلب ہے اور اندر انتشار اتنا

سو اپنے شہر کی سڑکوں پہ فوارے بناتا ہوں

وہ ہاتھ ہاتھ میں آیا ہے آدھی رات کے بعد

دیا دیے سے جلایا ہے آدھی رات کے بعد


سلیم احمد

’’آب رواں ‘‘ کے شاعر ظفر اقبال نے تجرید کے راستے دل کش مصوری کے بعد لسانی تشکیلات کی ٹھان لی جس کی پہلی قسط ’’گلافتاب‘‘ کی شکل میں بقول خود اُردو زبان کی تھکن اور پژمردگی دور کرنے کے لیے سامنے لائی گئی۔ شاعری کے شایانِ شان پیرایہ کی مسلسل تلاش میں مگن ظفر اقبال کبھی قدم آگے بڑھاتے ہیں تو کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے تجربات نے خود انھیں اور اردو غزل کو کیا دیا، ایک لمبی بحث ہےلیکن ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان کے وہی اشعارقبولِ عام کی سند حاصل کر سکے، جہاں انھوں نے ان لسانی تجربات کے حوالہ سے انتہاپسندانہ رویے سے گریز کیا:

بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا

پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا

کیا ریت کا اک پھول سا کھل اٹھتا ہے دل میں

جب موجِ ہوا آتی ہے صحرا کی طرف سے

پھر سرِ صبح کسی درد کے در وا کرنے

دھان کے کھیت سے اک موجِ ہوا آئی ہے

نہ کوئی پھول کِھلا ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے

یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے

شاعر وہی شاعروں میں اچھا

کھا جائے جو شاعری کو کچا

ظفر اقبال

سادگی و برجستگی کے پہلو بہ پہلو جون ایلیا نے اردو غزل میں متروک الفاظ کو دوبارہ اعتبار بخشا، زبان کے تجربات کی رو میں عربی اور فارسی کے الفاظ کا بلاجھجھک استعمال جون کا اختصاص ہے۔انور شعور کی شاعری معاشرے کی جکڑ بندیوں سے بیزار فرد کی آواز ہے۔ یہ فرد سراپا سوال ہے۔ بات ذاتی ہو کہ کائناتی۔۔۔۔۔۔۔ خودملامتی اورخودکلامی میں اٹھائے گئے سوالات فرد سے معاشرے اور بعدازاں پوری کائنات کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ شکیب جلالی اپنی جواں مرگی ، تند و تلخ لہجے اور قدرے منفرد تمثالوں کے باعث زندہ ہیں۔ عبیداللہ علیم خوابوں کے راستے زندگی کی سچائیوں تک رسائی کا خواہاں ہے۔ اقبال ساجد کی آواز زر پرست معاشرے میں ایک بے بس لیکن انا پرست انسان کی آواز ہے۔ لہجے کی تندی و تلخی اکثر اشعار میں ناگواری کا سبب ٹھیرتی ہے۔اسی زمانے میں انگریزی الفاظ کا غزل میں بکثرت استعمال سامنے آیا۔ لفظوں کی اردو زبان سے ہم آہنگی و نامانوسیت نے کئی رنگ دکھائے۔ ناصر شہزاد نے غزل میں گیت کے آہنگ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ نئے الفاظ غزل میں استعمال کرنے کی کوشش کی۔ غزل کو جدید علوم کا تڑکا لگانے کی شعوری کاوش ریاض مجید کے ہاں تغزل کو مجروح کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن یہی علوم توصیف تبسم کی غزل کو آب و تاب ودیعت کرتے ہیں۔ ساقی فاروقی کی طبیعت میں بغاوت کے عنصر نے ان کی غزل کو بھی ان کی نظم کے ساتھ مربوط کر دیا ہے۔


وجد کرے گی زندگی جسم بہ جسم جاں بہ جاں

جسم بہ جسم جاں بہ جاں شام بخیر شب بخیر

جون ایلیا

اچھوں کو تو سب ہی چاہتے ہیں

ہے کوئی، کہ میں بہت برا ہوں

انور شعور

میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے

یک دو نفس نمود سہی زندگی تو ہے

عبیداللہ علیم

جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں

ہمارا حوصلہ دیکھو، ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

اقبال ساجد

انگوروں کے جھنڈ میں میٹھا جھرنا تو

تجھ پرمٹنے والے خوش ادراک ہوئے

ناصر شہزاد

پتھر بنے کھڑے تھے تجسس کے دشت میں

دل گم طلسمِ شوق کی حیرانیوں میں تھا

ریاض مجید

سائے مہکے ہوئے گوشوں میں سمٹ جائیں گے

چاند نکلے گا تو یہ شہر اکیلا ہو گا

توصیف تبسم

باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں

بند آنکھوں پر کیسے کیسے منظر کھلتے ہیں

ساقی فاروقی

اسی دہائی میں پاکستانی غزل کے منظر نامے پرابھرنے والا ایک اہم نام خورشید رضوی کا ہے جنھوں نے روایت کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے اپنے عہد کے انسان کے کرب کو اپنے شعر میں سمیٹا۔ گم شدہ اقدار کی بازیافت خورشید رضوی کا بنیادی مسئلہ رہا ہے۔ان کےہاں تشبیہات و استعارات کا استعمال دیدنی ہے۔ اسلم انصاری کی غزل خارج و باطن کی کشمکش کا اظہاریہ ہے۔ قاضی ظفر اقبال کی غزل میں ایک سرمستی کی سی کیفیت ملتی ہے۔ وہ اپنے اشعار میں آتشِ رفتہ کے سراغ میں مگن ہیں، نارسا ئی کی متنوع کیفیات کا بیان اُن کے ہاں نمایاں ہے۔ طالب جوہری کی غزل روایت کی پاسداری اور جمالیاتی زبان کے تخلیقی استعمال کی مظہر ہے۔ شاعرات کی بات کی جائے تو ساٹھ کی دہائی میں زہرا نگاہ اور کشور ناہید نے اپنے عہد کی عورت کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی:

اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنھیں آتا تھا

خاک سے دل جو اٹے ہوں، انھیں جاری کرنا

خورشید رضوی

ٹھہر کے سن تو سہی غم کی ڈوبتی آواز

پلٹ کے دیکھ تو لے منظرِ شکستِ وفا

اسلم انصاری

اب کے وہ سودا سمایا سر میں ہے

گھر نہیں صحرا میں صحرا گھر میں ہے

قاضی ظفر اقبال

عطر فروشوں کے کوچے میں ایک شناسا خوشبو نے

میرا دامن تھام لیا تھا، اتنی دیر ضرور ہوئی

طالب جوہری

ملگجے کپڑوں پہ اس دن کس غضب کی آب تھی

سارے دن کا کام اُس دن کس قدر ہلکا لگا

زہرا نگاہ

اب صرف لباس رہ گیا ہے

وہ لے گیا کل بدن چرا کر

کشور ناہید


اِسی دہائی میں اردو غزل کی ہیئت سے بھی چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی گئی۔آزاد غزل کا ڈول ڈالا گیا۔ اس کوشش کے بنیاد گزار بھارت میں مظہر امام اور پاکستان میں فارغ بخاری تھے۔ فارغ بخاری نے اپنے تجربات کو قدرے وسیع رکھا جس کے لیے ان کا مجموعہ کلام "غزلیہ" ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔بعدازاں نئے پن کی شعوری کاوشوں سے معرا غزل، دوہا غزل، ماہیا غزل، مطلعاتی غزل۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ نثری غزل تک کے تجربے بھی کیے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی روش رواج نہ پا سکی۔اختر احسن کی زین غزلیں انفرادیت کا الگ تھلگ چولا زیب تن کرنے کی ناکام کوشش ثابت ہوئیں، کچھ بعید نہیں کہ "ہے ہنومان" کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو۔ باقر مہدی کی ’’کالی غزلیں‘‘ بھی اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتی نظر آتی ہیں۔

ساٹھ کی دہائی میں غزل کے ساتھ کھل کھیلنے کی کوششیں کی گئیں تو 1970 ء کے بعدغزل میں روایت کی طرف ایک جھکاو کا احساس سامنے آتا نظر آیا۔ لیکن اب صرف روایت کا احیاء مقصود نہیں تھا۔ اب گذشتہ دہائی میں ہونے والے تجربات بالخصوص اسلوبی تجربات سے استفادہ بھی پیشِ نظر رہا۔ یوں اسے قدیم اور جدید کا امتزاج بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کی سامنے کی و جہ شاید یہ حقیقت بھی ہوکہ ستر کی دہائی میں سامنے آنے والے ساٹھ کی دہائی میں کیے گئے تجربات کا انجام دیکھ چکے تھے۔ انحرافی غزل کو قبولیتِ عام نصیب نہ ہو سکی۔ دوسرے وہ شعرا جنھوں نے انحرافی غزل کا بیج بویا، قلیل یا طویل مدت کے بعد واپسی کے سفر پر مجبور ہو گئے۔ سلیم احمد سامنے کی مثال ہیں کہ انھوں نے بیاض کے بعد اس روش پر مزید سفر جاری رکھنے سے گریز کیا ۔ ظفر اقبال نے انٹی غزل کو جاری و ساری رکھا لیکن انتہا پسندانہ رویے میں واضح کمی تو’’ گلافتاب‘‘ کے دوسرے ایڈیشن ہی میں سامنے آ گئی۔ ان کی بعد کی غزل کو ’’آب رواں‘‘ ہی کی ایکسٹینشن قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ ایک متوازن رویہ تھا ۔غلام محمد قاصر کی غزل جدید طرزِ بیان اورروایت کے امتزاج سے ایک چونکا دینے والے ڈرامائی پیرایے میں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے۔ قاصر کی مثال نئے لکھنے والوں کے لیے ایک عمدہ مثال ہے کہ نئے موضوعات کے بغیر محض پیرایہ بیان کے بل بوتے پر قاری کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چراغ اور ستارہ جمال احسانی کے بنیادی استعارے ہیں۔ وہ معاملاتِ محبت کے بیان کے ساتھ ساتھ انسان اور کائنات کے حوالے سے سوال اٹھاتے بھی نظر آتے ہیں۔ ذاتی مشاہدات و تجربات اور مسلسل زوال پذیر انسانی اقدار کی تجزیاتی پیش کش سلیم کوثر کا اختصاص ہے۔ صابر ظفر ایک حساس شاعر ہیں۔ ان کی شعری اٹھان نے دنیائے ادب کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ان کے اردگرداشاعتِ کتب کی تیز تر دوڑ میں اور مسلسل تجربات کی شدید لگن میں ان کی غزل کا بانکپن کہیں راستے میں رہ گیا۔ محمد خالد نئی غزل کے حوالے سے ایک بڑا نام ہے۔ لیکن ان کے قاری کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کے کلام کی عدم دستیابی رہا ہے:

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اُڑ جاتے ہیں

اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

غلام محمد قاصر

اُس رستے میں پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال

ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑھی سیدھے پاوں کی

جمال احسانی

تو نے دیکھا نہیں اک شخص کے جانے سے سلیم

اِس بھرے شہر کی جو شکل ہوئی ہے مجھ میں

سلیم کوثر

یہ عشق ہے کہ ہوس ان دنوں تو پروانے

دیے کی لو کو بڑھا کر دیے پہ گرتے ہیں

صابر ظفر

یہ مسافت حدِ یک خواب سے آگے نہ گئی

ہم نے اس وادی غربت میں گزارا ہی کیا


محمد خالد

خالد احمدکی غزل کے اکھوے روایت سے پھوٹتے ہیں لیکن اپنے کمالِ فن کے ساتھ منفرد اسلوب، نادر تشبیہات و علامات اور تلمیحات کے باعث وہ معاصرین سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ نجیب احمد غزل میں سادگیِ بیان اور تہ داری کے باعث جانے جاتے ہیں۔ محسن اسرار کی غزل زبان و بیان کی خوبیوں اور جدید عہد کے مسائل کی تفہیم کے لیے قدیم علامات و استعارات کے عمدہ استعمال کے باعث اردو غزل کے ارتقاء میں اہمیت کی حامل ہے:

سبھی آنکھیں مری آنکھوں کی طرح خالی تھیں

کیا کہوں؟ کون یہاں جاننے والا تھا مرا

گھر میں نہ اک چھدام تھا، چاند چراغِ بام تھا

چاند کی چھائوں دھر دیا، ہم نے بھی سوت کات کے

خالد احمد

زر کے طالب ہیں، ریت چھانتے ہیں

ہم سب اک دوسرے کو جانتے ہیں

نجیب احمد

بہت سے زاویے ہوتے ہیں دلآویز صورت کے

مگر جو آدمی کی آخری تصویر ہوتی ہے

محسن اسرار

ساٹھ کی دہائی میں سامنے آنے والے شعرا کے ہاں بغاوت کے رجحان نے زور پکڑا تو ستر کی دہائی میں شعرا نے ماضی کی جانب دیکھنا شروع کر دیا۔ ماضی کی بازیافت کی خواہش، حال میں درپیش صورتِ احوال کی پیش کش کے لیے اساطیر اور مذہبی و تہذیبی علامات کے استعمال کو فروغ حاصل ہوا۔ یہاں بغاوت کی جگہ مسائل کے حل پر نظریں رکھنےکو ترجیح دی گئی۔ لیکن کہیں کہیں اس حوالہ سے شدت پسندی کے مظاہربھی دیکھنے کوملتے ہیں۔ اس رجحان کا آغاز ایک تحریک کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔اس صورتِ حال میں سب سے اہم شاعر ثروت حسین ہیں۔ ان کی شعری کائنات کے بنیادی ماخذ مذہب اور تاریخ ہیں۔اپنی زمین اور اپنی مٹی سے بڑھ کر ان کے لیے کچھ نہیں۔ انسانی نفسیات ان کا مطمح نظر ہے:

آنکھیں ہیں اور دھول بھرا سناٹا ہے

گزر گئی ہے عجب سواری یادوں والی

شہزادی تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک

کتنی محرابیں پڑتی ہیں، کتنے در آتے ہیں

ثروت حسین


مذہبی طرزِ احساس اور اسلامی اساطیر و تاریخ سے اگر کسی نے اُردو غزل کو مالا مال کیا ہے تو وہ اظہار الحق ہیں۔ وہ شان و شوکت، وہ علم و عرفان کہ جس کے بنیاد گزار مسلمان تھے، عقل و دانش۔۔۔۔۔۔ اظہار الحق کے ہاں محض ان کا تذکرہ ہی نہیں بلکہ کہیں کہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاعر خود اُس سارے کا حصہ ہے۔ اور بس یوں ہے کہ آپ بیتی کی صورت میں ایک داستان ہے کہ چل رہی ہے۔ عصر میں زوال دکھائی دیتا ہے تو علامات و استعارات اسی تہذیب سے تراشے جاتے ہیں، مستقبل کی نوید سنانا ہو تو عظمتِ رفتہ دھیان میں رکھ کر بات کی جاتی ہے۔ قصہ مختصر اظہار الحق نے اردو غزل کو ایک نئی ڈکشن سے مالا مال کیا۔

مرے ملازم و خرگاہ اسپ اور شطرنج

سب آئیں نظم سے ماتم کناں مرے پیچھے

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

محل پہ ٹوٹنے والا ہوں آسماں جیسے

اظہار الحق

اسی سلسلے کا ایک اہم نام غلام حسین ساجدبھی ہےجنھوں نے اپنے کردار ماضی سے تراشے لیکن اپنے ہم عصروں میں اپنی خاص انفرادیت سے ماضی کی بازیافت کرتے ہوئے پوشیدہ حالات کی عکاسی میں نمایاں کردار ادا کیاجسے غزل کی خاص صفت رمزیت کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔غلام حسین ساجد نے اردو غزل میں متنوع تجربات کی داغ بیل ڈالی:

آنکھیں مری رہیں نہ ستارے مرے رہے

کیا اعتبارِ صبح ہو، کیا اعتبارِ خواب؟

آتا نہیں ہے بامِ سحر پر وہ دل رُبا

جاتا نہیں ہے سطحِ بصارت سے داغِ خواب

غلام حسین ساجد

افتخار عارف کلاسیکی رچاومیں روح عصر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کربلا سے متعلقہ علامات و استعارات ان کی غزل کو انفرادیت عطا کرتے ہیں۔ رزمیہ آہنگ، ماضی سے وابستگی اور اس کی بازیافت کے حوالے سے افضال احمد سید اور خالد اقبال یاسر بھی اہم نام ہیں۔ ایوب خاورکی بات جائے تو ڈرامے سے وابستگی کے باعث ان کی نظموں اور غزلوں میں بھی ایک کہانی کا سا تاثر بنتا ہے۔ دو مصرعوں میں مکمل کہانی کی تشکیل ۔۔۔۔۔۔ مسائل کا مدبرانہ تجزیہ ایوب خاور کی غزل کے نمایاں اوصاف ہیں :

نئے کردار آتے جا رہے ہیں روشنی میں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا

دمشقِ مصلحت و کوفہ نفاق کے بیچ

فغانِ قافلہ بے نوا کی قیمت کیا

افتخار عارف

وہ پیشِ برشِ شمشیر بھی گواہی میں

کفِ بلند میں اِک شاخِ یاسمیں لایا

افضال احمد سید

ستون اپنے شکوہِ رفتہ میں گم کھڑا ہے

بس اک ذرا اِنہماک ٹوٹے گا، تب گرے گا

مخبری میری ہوئی چشمِ زدن میں کیسی

قصر دل ہی میں اسارا تھا کہ مسمار ہوا

خالد اقبال یاسر

مٹی کے کھلونے ہیں ترے ہاتھ میں ہم لوگ

اور گر کے بکھر جانے کے آثار بہت ہیں

دھوپ ہو، ابر ہو کہ سایہ گل

اب تو اس رہ گزر میں جو بھی ہو

ایوب خاور

جلیل عالی نے غزل میں مختلف زبانوں کے الفاظ کی باہمی اجنبیت کو دور کرنے کے لیے غیر اضافتی ترکیب سازی سے کام لیا۔ انھوں نے مقامی لب و لہجہ کو روایت کے پورے رچائو کے ساتھ اردو غزل کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔ عدیم ہاشمی نے اردو میں مکالماتی غزل کہنا شروع کی۔ مکالماتی غزل تو فارسی میں بھی کہی جاتی رہی اور خود اردو میں اس کی مثالیں دستیاب ہیں لیکن عدیم ہاشمی کی انفرادیت یہ ہے کہ انھوں نے مکالماتی غزل کا باقاعدہ ایک مجموعہ شائع کر ڈالا۔ قاضی حبیب الرحمن غزل کے ایک قادرالکلام شاعر ہیں۔ ان کی غزل کا سفر داخل سے خارج کی طرف ہے۔ پروین شاکر’’خوشبو‘‘ کے سفر سے نسائی احساسات کی شاعرہ قرار دی گئیں مگر ’’صدبرگ‘‘ کے بعد اُن کی غزل اجتماعی احساس کے ساتھ سماجی فکر کی آئینہ کاری کرتی نظر آتی ہے جو ان کے فکری ارتقا میں معاون ثابت ہوئی۔ پروین شاکراُردو غزل کی تمام شاعرات میں غزل کے فکری و فنی اور جمالیاتی معیارات کے حوالے سے ممتاز ہیں۔ ممتاز اطہر منفرد آہنگ اور موضوعات کے تنوع کے باعث اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ عہدِ موجود میں تصوف اور کلاسیکی روایت کے خوب صورت ادغام کی بات کی جائے تو احمد جاوید کی غزل دھیان میں آتی ہے۔ یونس متین بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں لیکن غزل بھی خوب کہتے ہیں۔ ان کی غزل کا واحد متکلم ایک خود مست انسان ہے جو اپنی روش پر گامزن ہے، اسے احساس ہے کہ معاشرہ اس کے ساتھ کیا رویہ رکھتا ہے لیکن وہ معاشرے کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں:

ہماری شوق راہوں پر کبھی دیکھے گی دنیا

تمھارے پتھروں کا گوہر و الماس ہونا

جلیل عالی

اُس نے کہا، عدیم! مرا ہاتھ تھامنا

چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے

عدیم ہاشمی

صورتِ سبزہ آرزوے وصال

سرکشیدہ بھی پائمال بھی ہے

قاضی حبیب الرحمن

وہ مجبوری نہیں تھی یہ اداکاری نہیں ہے

مگر دونوں طرف پہلی سی سرشاری نہیں ہے

مسند کے اتنے پاس نہ جائیں کہ پھر کھلے

وہ بے تعلقی جو مزاجِ شہاں میں ہے

پروین شاکر

تم سےجب بچھڑے تو کتنے رابطے رکھے گئے

آہٹوں پر کان پلکوں پر دیے رکھے گئے

ممتاز اطہر

یہ موسمِ دیوانگی پھر چاک ایجادی مری

لوٹا رہے ہیں پہلے کا خیاط کام آیا ہوا

احمد جاوید

یہ تو میں تھا کہ مرے ہاتھ میں پیمانہ تھا

ورنہ، دُنیا! ترا انداز بہیمانہ تھا

یونس متین


اسی دور میں تنویر سپرا کی آواز سب سے الگ تھلگ اور منفرد رہی۔ اسے ایک محنت کش کی آواز کہا جا سکتا ہے۔اسی حوالہ سے سبط علی صبا اور سید علی مطہر اشعر کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ ان شعرا کے ہاں نمایاں بات یہ رہی کہ اظہار کے معاملے میں کسی ڈھکی چھپی کے قائل نہیں۔اسلم کولسری بھی براہ راست اظہار کے قائل رہے۔ اُن کا تخلیقی اعجاز یہ ہے کہ اجنبی لفظیات بھی ان کے ہاں پورے رچائو کے ساتھ موجود ہیں۔

اے رات! مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

تنویر سپرا

جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا

ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو

سبط علی صبا

پھر لختِ جگر کوئلہ لے آیا کہیں سے

اب دیکھیے، کیا کیا سرِ دیوار بنے گا

سید علی مطہر اشعر

اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی

اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

اسلم کولسری

باقی احمد پوری کلاسیکی لب و لہجہ میں خوب صورت غزلوں کے شاعر ہیں، مصرعے کی عمدہ بنت کے ساتھ ندرتِ بیان ان کو ممتاز رکھتی ہے۔ لطیف ساحل ہر آن رنگ بدلتی دنیا میں انسان کی کسمپرسی کے تناظر میں اقدار کی روشنی کے خواہش مند ہیں۔ لیاقت علی عاصم اپنی غزلوں میں کہیں خودکلامی کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں حالات کی افسردگی و بے ہودگی پر نکتہ چیں، لیکن ان کی خود کلامی بھی کسی مجذوب کی خود کلامی نہیں بننے پاتی کہ بظاہر سر جھکائے اس شاعر کا مشاہدہ عمیق اور وسیع ہے۔ یوں یہ گفتگو ذات سے نکل کر زمانے سے معلوم ہوتی ہے۔ خالد علیم کی غزل میں عصری آگہی کے حوالہ سے متحرک تصاویر دکھائی دیتی ہیں۔ایک جانب اُن کے ہاں یادوں کی ایک جھلمل برکھا موجزن ہے۔یہ یادیں مسرت کا باعث بھی ٹھیرتی ہیں اور غم کا بھی۔ کہیں یہ آنکھ میں نمی کے ساتھ وارد ہوتی ہیں تو کہیں دل میں شگوفے پھوٹنے لگتے ہیں جب کہ بہ اعتبارِ دیگران کی غزل کا مزاحمتی اظہار اُن کی تخلیقی انفرادیت کے ساتھ تاثر پذیری کا حامل ہے۔ طنز کی لطیف لہر جس میں کرب کی ایک زیریں لہر اپنا کام کرتی نظر آتی ہے۔ اختر شمار کی غزلوں میں ان کی بصیرت سیاسی و سماجی حقیقتوں کے بیان میں ان کی معاون ہے:

ہوا چلے گی تو بچے اُڑائیں گے ان کو

یہ کاغذوں سے بنائے ہوئے پرندے ہیں

باقی احمد پوری

ٹکرائیے ہجوم سے اور جان جائیے

دیوار کون کون ہے رستہ ہے کون کون

لطیف ساحل

کہاں تک ایک ہی تمثیل دیکھوں

بس اب پردا گرا دو، تھک گیا مَیں

لیاقت علی عاصم

ایک تو تھا اور اک منظر تھا سطحِ آب کا

عکسِ گل سے جل رہا تھا آئنہ تالاب کا

خالد علیم

درخت آپس میں کہہ رہے تھے کوئی بتائو

ہوائیں جنگل میں رات کیسے گزارتی ہیں

اختر شمار

۔1980 بعداُفقِ غزل پر ابھرنے والوں ناموں میں بالخصوص مقبول عامر،عباس تابش، قمر رضا شہزاد، منصور آفاق، واجد امیر،اختر عثمان، ابرار احمد،حسین مجروح، آفتاب حسین، ضیاء الحسن، افضال نوید، اجمل سراج، عرفان ستار، اکبر معصوم، مقصود وفا، علی اصغر عباس،انجم سلیمی،سعود عثمانی،احمد فاروق، ابوطالب انیم، شاہدہ حسن،ارشد نعیم ، احمد نوید، رحمان حفیظ ، شاہین عباس،ناصر علی، غافر شہزاد، افضل گوہراورحمیدہ شاہین نے غزل کی کلاسیکیت کو جدید طرزِ اظہار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی سعی کی۔

توانا لب و لہجہ کے شاعر مقبول عامر کی غزل کی بنیادی خوبی بے ساختگی و حقیقت پسندی ہے۔ معروف شاعر عباس تابش کی غزل روایت اور جدت کا امتزاج ہے۔ قمر رضا شہزاد اپنی غزلوں میں نت نئی زمینوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ نئی اور طویل ردیف کی زمینیں ان کی شاعری پر غالب رہتی ہیں۔ قمر رضا شہزاد کی غزلوں کا آہنگ بلند ہے لیکن دوسری طرف یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان غزلوں کا واحد متکلم ایک خوف زدہ شخص ہے۔ اس کے حصے میں پشیمانیاں زیادہ ہیں ۔ منصور آفاق کا ابتدائی تعارف غزل سے زیادہ ادبی معرکہ آرائیوں سے ہوا۔ موضوعاتی تنوع کے پہلو بہ پہلو انگریزی زبان کے الفاظ کا بلاتکلف استعمال ان کی غزلوں میں بہت نمایاں ہے۔ یہ انگریزی الفاظ اردو غزل میں کہیں بھلے تو کہیں ناگوار گزرتے ہیں۔ سعود عثمانی ، ضیاء الحسن اور واجد امیر فرد اور معاشرے کی بات کرتے نظر آتے ہیں تو اختر عثمان فارسی اُردو روایت سے اپنی غزل کو آبدار کرنے کی نمایاں کوششوں میں مصروف ہیں:

وہ مری سوچ سے خائف ہے تو اس سے کہنا

مجھ میں اُڑتے ہوئے طائر کو تہہ ِ دام کرے

مقبول عامر

ہم کو دل نے نہیں حالات نے نزدیک کیا

دھوپ میں دور سے ہر شخص شجر لگتا ہے

عباس تابش

مرے کاندھوں پہ دھرا ہے کوئی ہارا ہوا عشق

یہی گٹھڑی ہے جو مدت سے اٹھائی ہوئی ہے

قمر رضا شہزاد

موجود کچھ نہیں یہاں معدوم کچھ نہیں

یہ زیست ہے تو زیست کا مفہوم کچھ نہیں

ضیاء الحسن

بس ایک لنچ ہی ممکن تھا جلدی جلدی میں

اُسے بھی جانا تھا مجھ کو بھی کام کرنا تھا

منصور آفاق

اب میں چاہوں بھی تو دنیا سے نہیں مل سکتا

زندگی!تو نے بہت دور اتارا ہے مجھے

واجد امیر

ہم بھی ویسے نہ رہے دشت بھی ویسا نہ رہا

عمر کے ساتھ ہی ڈھلنے لگی ویرانی بھی

سعود عثمانی


آفتاب حسین کی شعری دنیا میں آمد خوب صورت غزلیہ مجموعہ ’’مطلع‘‘ سے ہوئی۔’’مطلع‘‘ کی غزلیں اردو غزل میں اسلوب و موضوعات کی سطح پر تبدیلی کا عندیہ ہیں۔ افضال نوید کی غزل معاملاتِ محبت سے آگے کی غزل ہے۔ وہ لوک دانش کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اجمل سراج ،عرفان ستار اور اکبر معصوم اپنی غزلوں میں کائنات پر خندہ زن ہیں۔اُن کی غزل ایک دبی دبی بغاوت کا عنصر لیے ہوئےاُن کی تخلیقی انفرادیت کی آئینہ دار ہے۔ غافر شہزاد اپنے ماضی کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں۔۔۔ وہ گاوں، وہ حویلی، دریچے سے جھانکتی آنکھیں۔۔۔۔ان کی غزلوں میں یہ سب مناظر جیسے ان کی تسکینِ خاطر کو ٹھیر گئے ہیں:

پتے کی بات بھی منہ سے نکل ہی جاتی ہے

کبھی کبھی کوئی جھوٹی خبر بناتے ہوئے

آفتاب حسین

یوں لگا جیسے کبھی میں دہر کا حصہ نہ تھا

بات اتنی ہے کہ باہر کل سے میں نکلا نہیں

افضال نوید

بتاو تم سے کہاں رابطہ کیا جائے

کبھی جو تم سے ضرورت ہو بات کرنے کی

اجمل سراج

بس ایک دل ہی تو ہے واقفِ رموزِ حیات

سو شہرِ جاں کا اسے سربراہ میں نے کیا

عرفان ستار

مجھے خبر ہے کہ دنیا بدل نہیں سکتی

اسی لیے تو میں چشمہ بدل کے آیا ہوں

اکبر معصوم

ہم نے ہجرت کی تو ہے، دل سے مگر مانی نہیں

گاؤں کی خوشبو ہمارے جسم سے جانی نہیں

غافر شہزاد

مقصود وفا کی غزل معاشرے میں ایک ایسے فرد کی آواز ہے جو سب کے ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتا ہے، لیکن وہ اپنی تنہائی کو اپنی قوت بنا لینے پر قادر ہے ۔ احمد فاروق غزل میں زبان کی بازیافت کے ساتھ ساتھ اچھوتے مناظر کی تشکیل میں انفرادیت کے حامل ہیں۔ ابوطالب انیم کی غزل ایک ایسے شخص کی داستان ہے جو حدِ اختیار سے باہر نکلنے کو بے تاب ہے۔ حدود و قیود اس کے لیے قطعی بے معنی ہیں۔ شاہین عباس کی غزل کا بنیادی موضوع انسان۔۔۔۔۔۔۔ وقت اور دونوں کے باہمی ملاپ سے پیداشدہ الجھنیں ہیں۔ ناصر علی کی غزل ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو موجود کو ناموجود پر ترجیح دیتا ہے ۔ وہ موجود کے مسائل کی اصل جاننے کا خواہاں ہے۔ یہ خواہش کہیں ہلکے تو کہیں شدید رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے ۔ افضل گوہر درپیش مصائب پر پریشانی سے زیادہ حیرانی کا شکار نظر آتے ہیں ۔

اب مرے سامنے رستہ ہی کچھ ایسا ہے کہ میں

اپنی منزل کو بھی رستے سے ہٹا دینے لگا

مقصود وفا

یادزاروں میں اُدھر دھند کے پار

سرخ پھولوں نے قیامت ڈھائی

احمد فاروق

وہ رات بھی مری ساحل پہ جاگتے گزری

وہ رات جس میں سمندر کے ساتھ سونا تھا

ابوطالب انیم

پانی یہاں سے چل دیا ، تجھ کو پکارتا ہوا

بیٹھا اب اپنے حوض پر ، پانی کا انتظار کر

شاہین عباس

کیا کچھ کیے جاتا ہے یہاں ہاتھ ہوا کا

اے چشمِ تماشا!تری منظر پہ نظر ہے؟

ناصر علی

چھاوں تو پہلے ہی بہت کم تھی

پیڑ بھی دھوپ کا بنا دیا ہے

افضل گوہر

رحمان حفیظ روایت کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے معاشرتی و معاشی صورتِ حال پر نوحہ خواں ہیں۔علی اصغر عباس ہر آن بدلتی دنیا کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں تو ارشد نعیم رایگانی کے اسباب و نتائج کا تجزیہ کرتے ملتے ہیں۔ انجم سلیمی، شاہدہ حسن،احمد نوید، محمد یعقوب آسی اورحمیدہ شاہین کی غزل اپنی معنوی تہ داری کے ساتھ ایک نئے اسلوب کو وضع کرتی محسوس ہوتی ہے۔ کلاسیکی لب و لہجہ کے ساتھ جدتِ فکر کے تیور ان کی غزلوں میں نمایاں تر ہیں:

آپ آگے ہیں تو ہنس لیجیے ہم پر، لیکن

اتنا پیچھے سے نہیں آپ نے آغاز کیا

رحمان حفیظ

ایک دلچسپ حقیقت ہے مرا بننا بھی

جس نے جو مجھ کو بنایا میں وہی بنتا ہوں

علی اصغر عباس

تمھارا کیا ہے، تمھاری تو ایک کشتی تھی

ہمارے ہاتھ سے دریا گیا، کنارا گیا

ارشد نعیم

گزر رہی ہے مجھے روندتی ہوئی دنیا

قدیم و کہنہ روایات میں پڑا ہوا ہوں

انجم سلیمی

جب گھر ہی جدا جدا رہے گا

پھر ہاتھ میں ہاتھ کیا رہے گا

شاہدہ حسن

کوئی تو ہو، جو نہ پوچھے سبب بچھڑنے کا

کوئی تو ہو، جو یہ پوچھے، ملال ہے کہ نہیں

احمد نوید

اک عجب سلسلہ شکست کا ہے

اشک بھی ٹوٹ کر برستے ہیں

محمد یعقوب آسی

نواحِ چشم کا موسم بدلنا ہے، تعاون کر

یہی بس ایک دو ہفتہ ہمارے سامنے مت آ

حمیدہ شاہین


یوسف حسن کا خیال ہے کہ اَسّی کی دہائی کے بعد ادب میں جمود طاری ہے۔ ظفر اقبال کے نزدیک بھی غزل اپنے جملہ امکانات بروئے کار لا چکی ہے اور اب نظم کا دور ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ان دونوں سے بازی یوں لے گئے کہ انھوں نے2008ء میں "انتخاب زریں" کے نام سے اردو غزل کا ایک انتخاب کیا لیکن ان کی نظریں پروین شاکر سے آگے نہ دیکھ سکیں۔

یوسف حسن کا مسئلہ تو خیر ترقی پسند ادب ہے۔ ترقی پسند ادب ختم تو یوسف حسن کے نزدیک داستان شعر ختم۔ ظفر اقبال غزل میں اپنے تئیں تمام پینترے بدل کر دیکھ چکے، انھیں اب مزید کوئی امکان نظر نہیں آتا اور خواجہ صاحب نے شاید عرصہ دراز سے مطالعہ شعر ترک کر رکھا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اُردو غزل ہے کہ برابر منزلیں مارتی چلی جا رہی ہے۔

دراصل نوے کی دہائی اور اس کے بعد سامنے آنے والے شعرا کسی خاص مکتب ِ فکر سے وابستہ نہیں۔ ان کے ہاں روایت کا احترام تو موجود ہے لیکن وہ کسی کے نقوشِ قدم پر چلنے کو تیار نہیں۔اپنے راستے خود تراشنے کی روش اس نسل کے شعرا کی بنیادی خوبی ہے۔ نوے کی دہائی میں سامنے آنے والے شعرا میں شناور اسحاق، ادریس بابر، عابد سیال، عامر سہیل،نوید رضا، ارشد شاہین، کنور امتیاز احمد، حسنین سحر، افتخار شفیع، ذوالفقار عادل، کاشف حسین غائر، سلیم ساگر، ندیم بھابھہ، خورشید ربانی، اختر رضا سلیمی، انعام ندیم، علی ارمان، حسن عباسی، افضل خان،عطاء الرحمن قاضی، محسن چنگیزی،سرفراز زاہد، احمد رضوان،شہزاد عادل، اشرف سلیم ، شاہدذکی،علی ارمان،سعید دوشی، شاہد ماکلی،علی یاسر، اظہر عباس، احمد فرید، اکرام عارفی، سید امتیاز احمد، سلیم گورمانی، توقیر عباس،شہزاد نیر،ضیاء المصطفی ترک، احسن بٹ، سبطین رضا، حمید تسلیم، اظہر فراغ، دانیال طریر،جاوید قاسم، عدنان نبیل، کاشف مجید،حفیظ اللہ بادل اورمنصور فائزنمایاں ہیں۔

شناور اسحق کے ہاں ماضی بہت ہے۔ وہ ماضی جسے ان کا اپنا ماضی کہا جا سکتا ہے اور وہ ماضی بھی جو براہِ راست ان کا اپنا ماضی نہیں۔ آبا و اَجداد بلکہ ان سے بھی کہیں پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔ پوری نسلِ انسانی کا نوحہ ان کی غزل میں در آیا ہے۔ کیا تھا، کیا ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیوں؟اور پھر یہ سفر دورِ ماضی سے حال میں در آتا ہے۔ حال جو زار و زبوں دکھائی دیتا ہے۔

اے سمندر!تری آنکھیں ہیں یہاں سب سے قدیم

اس جزیرے پہ مکانات سے پہلے کیا تھا

شناور اسحق

موضوعاتی تنوع اور لب و لہجہ کی تازہ کاری ادریس بابر کی غزل کو جدید حسیت کا اظہاریہ بناتی ہے۔ لیکن افسوس کہ معقول تجربات سے نامعقول تجربات کی طرف رجحان نے ان کی غزل کو بہت نقصان پہنچایا۔ پھر نئے پن کے بانی کی حیثیت سے اپنی پہچان بنانے کے چکر میں عشرہ کی طرف توجہ انھیں غزل سے مزید دور لے جاتی نظر آتی ہے:

یہ کرن کہیں مرے دل میں آگ لگا نہ دے

یہ معائنہ مجھے سرسری نہیں لگ رہا

ادریس بابر

اور یہ رہا ادریس بابر کا نیا رنگِ شاعری جسے جدید تر بلکہ جدید ترین شاعری قرار دینے کی کوششیں شدت سے جاری ہیں:

جتنی دیر میں تم میسیج ٹائپ کرتے ہو

آدمی اتنی دیر میں پاگل ہو سکتا ہے

اُس کے دل میں آخری اک کمرا خالی تھا

اِ س سے اچھا کون سا ہاسٹل ہو سکتا ہے

ادریس بابر

اس جدید ترین کے شوق میں ایک اچھے بھلے شاعر نے، نہ جانے کیوں دوسرے شعر کے مصرعۂ ثانی میں ہاے ہوز کے ادغام سے مصرعے کو خارج از وزن کر دیا۔وزن میں ہمیں مصرعہ یوں پڑھنا پڑھے گا:۔۔۔۔۔۔اِ س سے اچھا کون سا ہاسٹلوسکتا ہے۔۔۔ حال آں کہ سامنے کی بات تھی: ہاسٹل اس سے، کون سا اچھا ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ مگر یہاں شاید وہ اس حد تک بھی ’’تعقیدِ لفظی‘‘ یا تبدیلی گوارا نہ کر سکیں۔

معاملاتِ وصال و فراق کا استعاراتی و تمثالی انداز میں بیان ہجومِ شعر میں عابد سیال کی انفرادیت کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ قاری پر مفاہیم کے متنوع روپ آشکار کرتا ہےاورکہیں کہیں تو یہ معاملات تخلیقی ترفع کے ساتھ اُن کی فنی و معنوی جمالیات کے خوش آہنگ سلیقے سے اُبھرتے نظر آتے ہیں۔ عامر سہیل کی غزل عہدِ موجود کے انسان کی بے چہرگی، اس سے پیدا شدہ مسائل اور بازیافت کی خواہش کی بازگشت ہے۔ شفیق آصف اپنی غزلوں میں سماجی مسائل پر نکتہ چیں ہیں۔ان کی غزلوں میں جدیدعہد کے انسان کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ یعنی احساسِ مغائرت اپنی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ لیکن وہ اسے نفسیاتی الجھن نہیں بننے دیتے۔ وہ اپنی تنہائی کو اپنی قوت بنا لینے پر قادر ہیں :

کھڑکیوں اور پردوں سے چھنتی ہوئی دودھیا چاندنی

اور پہلو میں ترکِ حجابات کے رنگ بکھرے ہوئے

عابد سیال

مری شبیہ مری اصل کو ترستی ہے

کہاں گیا ہے مرے آئنے اجال کے وہ

عامر سہیل

راستے گنگنانے لگتے ہیں

جب کوئی ہم سفر نہیں ہوتا

شفیق آصف

کنور امتیازاحمد کی غزل برجستگی و بےساختگی کی عمدہ مثال ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں فرد کی بے بسی کا اظہاریہ ہے۔ نوید رضا زمینی رشتوں کی گنجلکوں میں گھرے انسان کی آواز ہے، یہ رشتے حیات و موت سے ماورا ہو کران کے باطن میں ہلچل برپا کرتے ہیں۔ کمال ہے کہ اپنی ہی ذات کی بھول بھلیوں میں گم ارشد شاہین فسردہ ہونا نہیں جانتے۔ بڑی سے بڑی الجھن بھی ان کے ہونٹوں سے ہنسی نہیں چھین سکتی۔ اُن کی غزل ان کی ذات کا اظہاریہ ہے۔ افتخار شفیع کی غزل فکری سطح پر متاثر کرتی ہے۔ سیاسی و سماجی صورتِ حال کا تجزیہ ان کی غزل سے مخصوص ہے ۔ روایتی خوش سلیقگی کے سائے سائے حسنین سحر کی غزل انسان خدا اور کائنات کے آپسی تعلقات کی روئیدادہے:

روز اک خوف سے گزرتے ہیں

نیند کیسی میاں، کہاں کا خواب

کنور امتیاز احمد

کس قدر شور مچاتے ہیں یہ جانے والے

اِک ذرا چین سے سویا بھی نہیں جا سکتا

نوید رضا

گفتگو خود سے ضروری ہے مگر ڈرتا ہوں

خودکلامی مری عادت ہی نہ ہو جائے کہیں

ارشد شاہین

مجھ کو مری قامت کے مطابق بھی جگہ دی

یہ پھول اُٹھا کر کبھی گلدان میں رکھا؟

افتخار شفیع

دل محوِ دعا اور نظر جانبِ افلاک

اِس شہر میں ہر آنکھ ہتھیلی پہ دھری ہے

حسنین سحر


ذوالفقار عادل کی غزل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے پڑھ کر آپ اداس نہیں ہو سکتےاور کیفیت کے لحاظ سے زیادہ خوش بھی تو نہیں ہوتے۔ بس کوئی درمیانی کیفیت ہے، ایک ہلکا ہلکا درد ہے جسے اسلوب کی سادگی اور خوش بیانی سے ایک خوش کن کیفیت کے درجہ پر فائز کر دیا گیا ہے۔ کاشف حسین غائرکی غزل جدید انسان کی نفسیات کا اظہاریہ ہے۔ جدید انسان جو گونا گوں مسائل سے دوچار ہے، جسے شناخت کا مسئلہ درپیش ہے ۔آصف شفیع وارداتِ محبت کے شاعر ہیں۔ سادگیِ بیان اور جذبوں کی شدت ان کی غزل کے اوصاف ہیں۔ سلیم ساگربنیادی طور پر محبت اور معاملاِت محبت کے شاعر ہیں۔ندیم بھابھہ کی ابتدائی غزلوں کی بات کی جائے تو ایک خود مست عاشق۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ عاشق عام عاشقوں سے تھوڑا مختلف اس لیے نظر آتا تھا کہ اس کی محبت کے تقاضے دوسروں سے تھوڑے مختلف تھے، ابتدائی غزلیں کہے دیتی تھیں کہ اس عاشق کی منزل کہیں آگے بہت آگے ہے، سو گزرتے وقت کے ساتھ عشق کے مختلف مدارج طے کرتے کرتے اس کے ہاں اچانک ایک جست ۔۔۔۔۔۔ لیکن اس جست کو اتنا اچانک بھی نہیں کہا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔ عشقِ مجازی اپنی انتہا کو پہنچ کو حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔ خورشید ربانی کی غزل کو آگ اگلتے ماحول میں اُمید کا استعارہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا:

پھول کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے

وقت نہ تھا کہ دیکھتے پودوں کی دیکھ بھال میں

ذوالفقار عادل

پہلے مجھ کو بھیڑ میں گم کر دیا

پھر مجھے آواز دی جاتی رہی

کاشف حسین غائر

کھو گیا ہے جو بھیڑ میں آصف

دوسری بار مل بھی سکتا ہے

آصف شفیع

بین ہوتے ہیں نہ اٹھتا ہے جنازہ کوئی

عشق میں جان بہ اندازِ دگر جاتی ہے

سلیم ساگر

میں نے منزل کی دعا مانگی تھی

میری رفتار بڑھا دی گئی ہے

ندیم بھابھہ

افق افق پہ مہکتی ہوئی شفق سے کھلا

کوئی ستارہ کہیں جگمگانے والا ہے

خورشید ربانی

بے یقینی اور تشکیک سے لبریز اختر رضا سلیمی کی غزل زمان و مکاں کے وجود پر سوال اٹھاتی نظر آتی ہے۔ انعام ند یم کی غزل زبان کے تخلیقی استعمال کی مظہر ہے۔علی ارمان کی غزلیں یقین و بے یقینی کے درمیان معلق انسان کی آواز بنتی نظر آتی ہیں، دبے دبے سوالات سرکشی پر مائل رہتے ہیں۔ 


<<<Click below for part 1 to part 3 >>>

Part 1

Part 2

Part 3 


Post a Comment

Previous Post Next Post