Facebook SDK

 پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان سے تا حال 

اردو غزل کا جدید دور

اردو غزل کے پاکستانی ادوار

پاکستان میں اردو غزل کا آغاز و ارتقاء

جدید اردو غزل کا ارتقاء

پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان  تا حال

پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان سے تا حال

پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان سےآج تک

تقسیمِ ہندوستان سے قبل حسرت ،فانی،جگر،اصغر اور ان سے قدرے بعد یگانہ اور فراق کی آوازیں اپنی تخلیقی انفرادیت کے ساتھ اردو غزل کی فضا میں اپنے نمایاں اثرات پیدا کر چکی تھیں بلکہ یگانہ کی غزل نےکہنہ و پامال مضامین کو ترک کرکے خارجی عناصر کو اپنےداخلی مگر اثر انگیزپیرایےسے ہم آہنگ کرتےہوئے غزل کے لیے ایک نئی تخلیقی فضا ہموار کر دی تھی اور اس فضا کے اثرات فراق کی غزل میں بھی جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب جوش ملیح آبادی غزل اوربالخصوص نظم کے ذریعے اپنی بھاری بھرکم آواز میں انقلاب کے نعرے الاپ رہے تھے۔ جوش نے اگرچہ حسبِ روایت غزل کو ذریعۂ اظہار بنایا مگر کسی حد تک انقلابی مزاج، جسے اُن کی بوقلموں طبیعت کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے، انھیں نظم گوئی پر نہ صرف آمادہ رکھا بلکہ صنفِ غزل کی مخالفت میں بھی پیش پیش رہے،تاہم یاس یگانہ چنگیزی اور فراق نے غزل کو جدید نظم نگاری کے مقابل تازگی و توانائی عطا کرکے اپنے تخلیقی عناصر سے ایک نیا جہانِ معنی ترتیب دیا۔ یہی وہ دور تھا جب حفیظ نظم گوئی کے ساتھ ساتھ غزل میں بھی دادِ سخن دیتے ہوئے اس کے صوتی و معنوی دروبست کے ساتھ ایک اثر انگیز پیرایۂ اظہار ترتیب دے رہے تھے، البتہ اُن کی ابتدائی غزل گوئی میں داغ دہلوی اور شادعظیم آبادی کے شعری عناصر بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں اور یہی وہ عناصر ہیں جو ان کی غزل میں بقول اُن کے نالے کو ’’پابندِ نَے‘‘ کرتے ہوئے اُن کی ’’طرزِخاص‘‘ کا باعث بنے۔

یہ وہ شعرا ہیں جو غزل کی شدید مخالفت کے باوجود نہ صرف صنفِ غزل کو زندہ رکھے ہوئے تھے بلکہ انھوں نے اردو غزل کی زمین میں اپنے فکر و فن اور تخلیقی صداقت سے ایسی آبیاری کی کہ اشجارِ نودمیدہ بھی تنومند ہو کرنئے برگ و بار کھِلانے لگے۔ یگانہ، فراق اور حفیظ کےجونیئر معاصرین میں فیض احمد فیض اور معین احسن جذبی کی غزل اپنی تخلیقی انفرادیت اور جدتِ آہنگ کے ساتھ اپنے ابتدائی اثرات مرتب کر رہی تھی کہ ملک دو حصوں میں بٹ گیا، تاریخ دو دھاروں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا بھی زمانہ تھا......دوسرے معنوں میں نظم کے عروج کا زمانہ، لیکن مملکتِ پاکستان کا قیام … ترقی پسندوں کی فہم سے بالا تھا، اشتراکیت پسندی میں غرق آنکھیں اس معجزے کو سانحہ قرار دینے پر تل گئیں۔ کسی نے تقسیم کے مضمرات کو موضوع بنایا تو کسی نے سرے سے اس تقسیم ہی کو غلط قرار دے دیا۔ یہ سوچ ترقی پسند تحریک اور وابستگانِ تحریک کے تخلیق کاروں کے لیے جاں لیوا ثابت ہوئی۔ خود ترقی پسند تحریک کے سیکرٹری جنرل احمد ندیم قاسمی نے اس سوچ اور رجحان کو انتہا پسندی کا باعث قرار دے دیا۔ 1952ء میں مولوی عبدالحق کی صدارت میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں تحریک کے غیر سیاسی ہونے کا اعلان کیا گیا۔ لیکن1953ء میں حکومت پاکستان نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی تو ترقی پسند مصنفین بھی اس پابندی کی زد میں آ گئے۔اس سارے میں ایک تو ادب میں نعرے بازی کا رواج کم پڑا، دوسرے غزل ایک بار پھر اوپر اٹھتی دکھائی دی۔ ماحول کو غیر موافق جان کر فیض، احمد ندیم قاسمی، ظہور نظر، عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری جیسے شاعروں نے علامتی پیرایہ اختیار کرتے ہوئے ماحول سے ہم آہنگی اختیارکرنے کی کوشش کی، جس میں نمایاں کامیابی صرف فیض ، احمد ندیم قاسمی اور ظہور نظر کے حصہ میں آئی جنھوں نے انسانی زندگی کو موضوع بناتے ہوئے دل کش پیرایہ میں معاشرتی و معاشی اورسیاسی مسائل کا احاطہ کیا۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کو دور تک سرگرم عمل رکھنے میں فیض ، ندیم، ظہیر، ظہور نظر اور عارف عبدالمتین کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔


ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

فیض احمد فیض

جب سے آنکھوں میں کھٹکنے لگی ریت

میرے صحراؤں میں وُسعت نہ رہی

احمد ندیم قاسمی

راستے روشن ہیں، آثارِ سفر معدوم ہیں

بستیاں موجود ہیں، دیوار و در ملتے نہیں

ظہیر کاشمیری

رات بھر اِک چاپ سی پِھرتی رہی چاروں طرف

جان لیوا خوف تھا لیکن ہُوا کچھ بھی نہیں

ظہور نظر

مجھے ہے شب خوں کی فکر لیکن انھیں ہلاکت کا ڈر نہیں ہے

مرے قبیلے کے لوگ سوتے ہیں اور شب بھر میں جاگتا ہوں

عارف عبدالمتین

قیام پاکستان کے بعد ملک کے غیر مستحکم اور متزلزل سیاسی، سماجی اور معاشی حالات نے اردو شعر و داب پر جو اثرات مرتب کیے اور اُن کے نتیجے میں جن نئی تحریکوں نے جنم لیا، اُن سے ادب میں کیا کیا متحارب نظریات سامنے آئے، ایک الگ سلسلۂ بحث ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اور اس کےنتائج میں ادب کی صورتِ احوال ہمیشہ سیاسی استحکام یا عدم استحکام کی تابع رہی ہے۔ ملک کا حکومتی اور سیاسی نظام اگر درست ہے تو اس درستی کے نتیجے میں معاشرے کے خد و خال بھی روشن رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے تقسیم کے جلد بعد بلکہ تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے فسادات ، قائداعظم کی رحلت اور پھر ایک مسلسل سیاسی عدم استحکام پاکستان کا مقدر بن گیا۔ان تمام حالات نے شعر و ادب پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ 1956ء میں آئین پاکستان کے لیے ایک آئینی مسودہ مرتب ہوا اور پھر نافذ بھی ہوا مگر جمہوری حکومت کو استحکام حاصل نہ ہو سکا، اور پھر دو سال کے قلیل عرصہ میں اوپر تلے تین وزرائے اعظم کی آمد اور 1958ء کے مارشل لاء نے تو جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی ۔ جنرل ایوب کے مارشل لاء 27اکتوبر1958ء سے تاحال کیا کیا حادثات رونما ہوئے، یہاں اس تفصیل کی گنجایش نہیں مگر اس دوران میں جس بڑے المیے نے جنم لیا اُس نے تو تقسیمِ ہندوستان سے حاصل ہونے والی مملکتِ خداداد کا بھی دو حصوں میں بٹوارا کر دیا۔ بعد ازاں 1977ء کے انتخابات اور پھر جنرل ضیا کے مارشل لا کے نتیجے میں بھٹو کی پھانسی، یہ سب وہ الم ناک واقعات ہیں جو آج تک ملک کے سیاسی عدم استحکام کا باعث بن چکے ہیں۔ بار بار کے مارشل لاء نے غزل میں کہیں قنوطیت کو رواج دیا تو کہیں احتجاج کی روش نے زور پکڑا، کہیں جالب کی شعری فضا میں مزاحمتی اندازِ نظر اختیار کرتے ہوئے کھل کر اور کہیں وسیع تر تناظر میں علامتی پیرایۂ اظہار کے ساتھ غزل اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس مجموعی سیاسی فضا میں ادبی تحریکوں کی بات کی جائے توترقی پسند تحریک، حلقۂ ارباب ذوق، تحریکِ ادب اسلامی، پاکستانی ادب، اور ادبی ثقافتی تحریک اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ ترقی پسند تحریک کو رومانیت اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ اس تحریک میں نسلِ انسانی کی بہبود کے بنیادی مقصد کے طور پر تخلیق کاروں کو داخل کی جگہ خارج کی راہ دکھائی گئی۔ یہ تحریک ادب کے راستے ملک میں انقلاب کی خواہش مندتھی ، لیکن کمیونزم اور اشتراکیت اس کی اساس بن گئے۔ حلقۂ اربابِ ذوق میں ادیبوں شاعروں پرموضوعات کے حوالہ سے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ ترقی پسند تحریک میں روایت کو یک سر مسترد کر دیا گیا لیکن حلقۂ اربابِ ذوق میں روایت کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ ان دونوں تحریکوں کو ایک دوسرے کی ضد بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسلام کی اساس اور اس کی روح سے مطابقت پیدا کرنے کےلیے تحریک ِادب اسلامی کی بنیاد رکھی گئی۔ تحریک ادب اسلامی کو بھی ترقی پسند تحریک کا ردِعمل کہا جاتا ہے، لیکن موضوعات و منشورات کی قید نے اس تحریک کو بھی زیادہ عرصہ فعال نہیں رہنے دیا ۔ ترقی پسند تحریک ہی کے ردعمل کے طورپر پاکستانی ادب کی تحریک اور ارضی ثقافتی تحریک وجود میں آئیں۔ مذکورہ تحریکوں نے اپنی اپنی جگہ اردو غزل کو متاثر کیا۔


قیامِ پاکستان کے بعد سب سے پہلا واقعہ تو یہ ہوا کہ شعرا کی بڑی تعداد غزل ہی کی جانب متوجہ ہوئی۔ وہ لوگ جو نظم کے حامی تھے اور نظم کہہ رہے تھے، وہ بھی غزل کی جانب راغب ہوئے۔ یو ں قیامِ پاکستان کے بعد غزل گو شعرا کی پہلی کھیپ زیادہ تر انھی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شعرا وہ ہیں کہ جن کا شعری مقام و مرتبہ تقسیم سے پہلے ہی متعین ہو چکا تھا اور کچھ وہ جو قیامِ پاکستان کے آس پاس منظر پر آئے۔ جوش نے غزل کم کہی، غزل کی مخالفت میں بھی سرگرم رہےلیکن دل چسپ پہلو یہ ہےکہ اس مخالفت میں بھی ان کا تخلیقی مزاج غزل نما رہا، یعنی ان کی نظمیں بھی غزلیہ آہنگ کے ساتھ مرتب ہیں اگرچہ اُن کے پیرایۂ اظہار کی نمایاں ترین سطح ان کی لفظی مرصّع کاری سے ہویدا ہےتاہم ان کی غزلیں تغزل و رعنائی کا پہلو بھی رکھتی ہیں۔ حفیظ جالندھری نے غزل میں سلیس زبان اور غنائیت کو رواج دیتے ہوئے گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزل میں جگہ دی۔ سلیم احمد قمر جلالوی کو ایک بڑی روایت کا آخری شاعر قرار دیتے ہیں۔ صبا اکبر آبادی کی غزل ایک باشعور شاعر کی غزل ہے جس پر روحِ عصر کا پرتو جھلملاتا نظر آتا ہے۔ حفیظ ہوشیارپوری کے ہاں غزل کی پوری روایت داخلیت و خارجیت کے مکمل امتزاج کے ساتھ عہدِ موجود کی شکستگی و خستگی کا احاطہ کرتی ہے۔ انسانی نفسیات کے پیچیدہ و ناقابلِ گرفت پہلو ان کے خاص موضوعات ہیں۔

دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی

ہر طرف دیکھ لیا جب تری صورت دیکھی

جوش ملیح آبادی

جس طرح لکڑی کو کھا جاتا ہے گھن

رفتہ رفتہ غم مجھے کھا جائے گا

حفیظ جالندھری

ابھی تک یاد ہے کل کی شبِ غم اور تنہائی

پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر آہستہ آہستہ

قمر جلالوی

اپنے لیے تعینِ منزل کوئی نہیں

جو بھیڑ جس طرف کو چلی ساتھ ہو لیے

صبا اکبر آبادی

ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے جوڑتا جاتا ہوں میں

ایک مشکل کم ہوئی اور ایک مشکل آ گئ

حفیظ ہوشیارپوری

Click here for part 2

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

Previous Post Next Post