پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان سے تا حال
اردو غزل کا جدید دور
اردو غزل کے پاکستانی ادوار
پاکستان میں اردو غزل کا آغاز و ارتقاء
جدید اردو غزل کا ارتقاء
پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان تا حال-3
پاکستان میں اردو غزل ۔قیامِ پاکستان سے موجودہ دور تک
عصرِ حاضر کے مصروف انسان کی ذہنی و جذباتی زندگی کی
ترجمانی کی بات کی جائے تو ظہور نظر کی غزل انفرادیت کی حامل ہے۔ رسا چغتائی کی
غزل ایک ایسے فرد کی شاعری ہے جس میں فرد بیک وقت اپنے آپ کو معاشرے سے منسلک اور
جدا محسوس کرتا ہے۔ یہ رویہ ایک نفسیاتی کش مکش کو جنم دیتا ہے۔ اسی طرح اقدارِ
ماضی و حال پر تجزیاتی نظر اور مستقبل کے دھندلے خاکے محشر بدایونی کی غزل کے
عناصرِ ترکیبی ٹھیرتے ہیں۔ روایت کے ساتھ ساتھ جدیدیت سے مملو رضا ہمدانی کی غزل
ان کے اندرونی رومانی اضطراب کی عکاس ہے۔ خاطر غزنوی کی غزل میں رومانویت اور
انقلابی فکر کا متوازن امتزاج ملتا ہے ۔ محبوب خزاں کے ہاں مشاہدات و تجربات کی
سچائی نئی علامتوں کے ساتھ شعر کا روپ دھارتی نظر آتی ہے۔ نسائی احساسات و جذبات
کے اظہار کے سلسلے میں اولیت کے باعث ادا جعفری کا نام اہم ہے۔ تاہم فہمیدہ ریاض
نے اپنی نمایاں شاعری میں جس بے باکی اور کھلی علامتوں کے ساتھ غزل میں صنفِ نسواں
پر مردانہ معاشرے کے جبر و تشد کو اپنے احتجاج کی بنیاد بنایا اس کی دوسری مثال
کشور ناہید کی غزل میں پہلی بار نظر آتی ہے:
عجب میرا قبیلہ ہے کہ جس میں
کوئی میرے قبیلے کا نہیں ہے
رسا چغتائی
اس سفر میں کچھ نشاں ایسے بھی ہوں جو یہ بتائیں
دھوپ ہی دھوپ اُس طرف ہے یا کہیں سایہ بھی ہے
محشر بدایونی
صحرائے خیال کا دیا ہوں
ویرانہ شب میں جل رہا ہوں
رضا ہمدانی
پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے
ساحل پہ ریت چھوڑ کے دریا اتر گئے
خاطر غزنوی
کیسے آ جاتی ہے کونپل پہ یہ جادو کی لکیر
دن گزر جاتے ہیں محسوس کرو یا نہ کرو
محبوب خزاں
وہ میرے ہونٹ پہ لکھا ہے، جو حرف مکمل ہو نہ سکا
وہ میری آنکھ میں بستا ہے، جو خواب کبھی دیکھا ہی نہیں
فہمیدہ ریاض
سجاد باقر رضوی کے ہاں اردو غزل کی پوری روایت اپنی
پوری جولانی کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں معاشرتی اقدار کا شعور بہت نمایاں ہے۔
وزیر آغا کی غزل علامتی پیرایۂ بیان کی حامل ہے۔عرش صدیقی کی غزل فرد اور معاشرہ
کے حوالے سے عصری شعور کی آئینہ دار ہے۔ حبیب جالب کی غزل ماضی کی حسین یادوں کی
عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ جبر کے خلاف جمہور کی احتجاجی آواز ہے:
سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی
غلامو! یہ نہ سمجھو داغِ رُسوائی جبیں تک ہے
سجاد باقر رضوی
دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا
سارا لہو بدن کا رواں مشتِ پر میں تھا
وزیر آغا
دل ہے کہیں، دماغ کہیں، اور ہم کہیں
شیرازہ حیات بہم ہو تو کس طرح
عرش صدیقی
خامشی سے ہزار غم سہنا
کتنا دشوار ہے غزل کہنا
حبیب جالب
قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے خد و خال سنوارنے والے
شعرا میں منیر نیازی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ منیرنیازی کی شاعری رنگا رنگ خیالات
اور انوکھے امیجز سے عبارت ہے۔ وہ موضوعات کہ ایک عام شاعر کے قلم کے بس کے نہیں
ہوتے، منیرنیازی کے ہاں گہرے مشاہدے، شب و روز کے تفکر، عمیق تجربے اور زبان و
بیان کی خوبیوں کے باعث قاری پر ایک سحر کی صورت طاری ہو جاتے ہیں۔ ان کے مشاہدہ
کا انداز بالکل اس بچے کا سا ہے جو پہلی بار کائنات پر نظر ڈالتا ہے۔ اس وقت اس کی
آنکھوں سے عیاں حیرت دیدنی ہوتی ہے۔ تجسس کا انداز بھی اس بچے سا ہے جس نے ابھی
ابھی اس کائنات میں آنکھیں کھولی ہیں۔ منیر نیازی اپنے عصر کی صورتِ حال کی تصویر
کشی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کا کہا، ان کا لکھا قاری اور سامع کو اپنے دل
کی آواز محسوس ہوتا ہے۔ وہ بھرے پُرے شہروں میں انسان کی تنہائی پر نوحہ خواں ہیں:
میں جو منیرؔ اک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا
اس کی چک کی تیلیوں سے ریشم کے شگوفے پھوٹے
مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں
رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی
یاد بھی ہیں اے منیرؔ اس شام کی تنہائیاں
ایک میداں، اک درخت اور تو خدا کے سامنے
چار چپ چیزیں ہیں: بحر و بر ، فلک اور کوہسار
دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے
اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں
گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے
منیر نیازی
اسی سلسلے کا ایک اہم نام ناصر کاظمی ہے جنھوں نے
پاکستان میں اردو غزل کو فکری و جذباتی سطح پر جدت سے ہم کنار کیا۔ ان کی غزل کا
خمیر روایت سے ہے۔ انھوں نے تقسیم کے اثرات کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا بلکہ اس کی
داخلی کیفیات کو اپنے اشعار کی زینت بنایا۔ ان کا ذاتی سوز و گداز اجتماع کا کرب
بنتا نظر آتا ہے۔ ماضی کی یادیں اس پر مستزاد ہیں۔ ناصر کے ہاں علامات و استعارات
کے سلسلہ میں بھی جدت طرازی نمایاں ہے:
یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
تیرے سائے کی لہروں کو
میرا سایہ کاٹ رہا تھا
ناصر کاظمی
شہزاد احمد محبت کی نفسیات کے شاعر ہیں۔ شہزاد احمدکی
غزل میں عہدِ جدید کے فلاسفہ کے اٹھائے فکری سوالات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ
اپنے عصر پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ معاشرے اور فرد کے باہمی تعلقات کی تجزیاتی پیش
کش شہزاد احمد کی غزل کا اختصاص ہے۔ان کے تجربات و مشاہدات کی دنیا وسیع اور فکر
انگیز ہے:
فلک سروں پہ اچانک ہی آ پڑا شہزادؔ
نجومیوں نے بہت زائچے بنائے تھے
بیٹھے بیٹھے میں بہت دور نکل جاتا ہوں
در و دیوار کو دن بھر نہیں دیکھا جاتا
جو تھا عزیز اسی سے گریز کرتے رہے
گلی گلی میں پھرے اپنا راستہ نہ لیا
شہزاد احمد
معاملہ حسن و عشق کا ہو کہ اداسی و تنہائی کا، جنسی
الجھنیں ہوں کہ معاشرتی و سماجی مسائل۔۔۔۔۔۔۔۔ رئیس فروغ کے پیشِ نظر فردِ واحد کے
احساسات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ قمر جمیل اپنی تخیلی صلاحیتوں کی مدد سے تصویر
کشی میں طاق ہیں۔انھوں نے خوب صورت اور منفرد اندازِ بیان کی حامل غزلیں کہیں لیکن
ان کی توجہ نثری نظم کی طرف زیادہ رہی۔ احمد فراز ہمارے عہد کے مقبول غزل گو ہیں۔
ان کی غزل بنیادی طور پر عشقیہ غزل ہے، لیکن سیاسی و سماجی موضوعات کی بھی کمی
نہیں۔ موضوع جیسا بھی ہو، فراز روایت کے گہرے شعور کے باعث تغزل کو مجروح نہیں
ہونے دیتے۔ دھیمے لہجے میں غزل کہنے والے اطہر نفیس کی غزلیں ان کے ذاتی احساسات
کی نمائندگی کرتی ہیں۔ محسن احسان کی غزل جدید طرزِ احساس کی حامل ہے۔ محسن
بھوپالی اپنی غزل میں سیاسی و معاشرتی صورتِ حال پر نکتہ چیں ہیں :
سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
آسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے
رئیس فروغ
میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل
اور کچھ لوگ چھپا رکھے ہیں آئینے میں
قمر جمیل
دل کے ٹکڑوں کو کہاں جوڑ سکا ہے کوئی
پھر بھی آوازہ آئینہ گراں کھینچتا ہے
احمد فراز
مری آنکھوں کے خشک و تر میں جھانکو
کبھی صحرا، کبھی دریا ہوں میں
اطہر نفیس
امیرِ شہرنے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
محسن احسان
نیرنگئی سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
محسن بھوپالی
احمد مشتاق اِس دور کے اہم ترین شاعر ہیں جن کی غزل کے
بارے میں یہ تک کہا گیا کہ ناصر کاظمی کا ان پر بہت اثر ہےلیکن حقیقت اس کے منافی
ہے کہ احمد مشتاق کی غزل ناصر کی غزل سے محض سادگی بیان کی حد تک مماثل ہے۔ احمد
مشتاق اپنے شعر کا تانا بانا اپنے اردگرد کےماحول سے بنتے ہیں۔وہ بظاہر معمولی
اشیا اور واقعات کے بیان سے معانی کا ایک جہان اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں۔ رام
ریاض کی غزل میں حرکی پیکر بہت نمایاں ہیں۔ انھیں تجسیم کا شہنشاہ بھی کہا جاتا
ہے۔ ان کے ہاں قدرے ذاتی محرومیوں اور اپنے اردگرد معاشرتی ناانصافیوں اور
ناہمواریوں کی خوب صورت پیکر تراشی ملتی ہے۔ جدتِ فکر اور بلندیِ تخیل سید آلِ
احمد کی غزل کے نمایاں اوصاف ہیں۔ انسانی رشتوں میں شکست و ریخت اور ان سے
روزافزوں ترویج پاتی نفسیاتی پیچیدگیاں سید آلِ احمد کے خاص موضوعات ہیں۔ اپنی
ذات کو مرکزیت کے درجہ پر فائز کر کے گرد و پیش کی دنیا سے موضوعات اخذ کرنے والے
رضی اختر شوق اپنے عم عصروں سے منفرد نظر آتے ہیں۔ شعری جمالیات کے شاعر انجم
خیالی پرانی علامات کو نئے مفاہیم دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں :
کیسے مکاں اُجاڑ ہوا، کس سے پوچھتے
چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا
احمد مشتاق
میں رام سب سے بڑا ہوں اور اس زمانے میں
بڑوں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں
رام ریاض
یہ کیسی رات ڈھلی، مصلحت کا دن نکلا
سکونِ روح و بدن کو ترس گئے ہم تم
سید آلِ احمد
اور کیا مجھ سے تری کوزہ گری چاہتی ہے
میں یہاں تک تو چلا آیا ہوں گردش کرتا
رضی اختر شوق
ہر گھر میں ایک ایسا کونا ہوتا ہے
جہاں کسی کو چھپ کر رونا ہوتا ہے
انجم خیالی

Post a Comment